کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں نماز کے وقت لوگ دکانیں کھلی
چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں اور ان کو چوری کا ڈر نہیں ہوتا۔ وہاں قانون کا
احترام کیا جاتا ہے۔ صرف سعودی شہری ہی نہیں ، غیرملکی شہری بھی وہاں کے ہر قانون
کا احترام کرتے ہیں۔ اس وجہ سے وہاں جرائم کی شرح نہایت کم ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
لوگوں کا ایماندار ہونا! نہیں بلکہ سزا کا ڈر۔ وہاں چوری کی سزا ہاتھ کا کاٹنا ہے۔
اس وجہ سے کوئی چوری نہیں کرتا۔ وہاں کی پولیس رشوت نہیں لیتی۔ کیوں کہ اس کی نہایت سخت سزا
ہے۔ خود قرآن میں بھی جزا کے ساتھ ساتھ سزا کا ذکر بھی ہے اور کثرت سے ہے۔ جزا سے
زیادہ سزا کا خوف انسان کو قانون پر عمل کرنے سے روکتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ
پاکستان میں گاڑی چلانے والے پاکستان میں ٹریفک سگنل کی پرواہ نہیں کرتے لیکن باہر
ممالک میں کرتے ہیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وہاں جاکر شریف ہوجاتے ہیں؟ نہیں ،
بلکہ سزاوں کا خوف اُنہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک حکایت ہے کہ برطانیہ کے
ایک گاؤں میں ایک مسافر نے دیکھا کہ ایک کسان اپنے کھیت کے پاس بندوق لیے پہرا دے
رہا تھا۔ اس مسافر نے پوچھا کہ اس گاؤں کے لوگ کیسے ہیں۔ اس کسان نے جواب دیا کہ
بہت ایماندار اور اچھے۔ تو اس مسافر نے پوچھا کہ آپ پھر یہ بندوق لیے پہرا کیوں دے
رہے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ ان لوگوں کو ایماندار رکھنے کے لیے۔ اسلام میں ہے کہ
اگر بچہ 12 سال کی عمر میں نماز نہ پڑھے تو اس کو سزا دو۔ کیا والدین زندگی بھر اس
کو سزا کے ذریعے نماز پڑھنے پر مجبور کریں گے۔ بالکل نہیں ، بلکہ وہ کچھ عرصے بعد
عادی ہوجائے گا تو اس کو زبردستی نماز کے لیے نہیں کہنا پڑے گا، وہ خود ہی نماز کی
پابندی کرے گا۔ بالکل اسی طرح باہر ممالک میں چھوٹے جرائم کی سزا ہے اور اس پر عمل
درآمد ہوتا ہے تو وہ لوگ قانون پر عمل کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ جھوٹ اس لیے نہیں
بولتے کہ ان کو سچ بولنے کا خوف نہیں ہے۔ اس کی مثال اس طرح لیے لیتے ہیں کہ اگر
صبح کا موسم بہت اچھا ہے اور آپ کا آفس جانے کا دل نہیں ہے تو آپ اپنے آفسر سے یہ
نہیں کہیں گے کہ موسم اچھا ہے اور مجھے تفریح کے لیے جانا ہے اس وجہ سے میں آفس
نہیں آ رہا ہوں۔ اگر آپ ایسا کہیں گے تو آفسر آپ کو ذلیل کرکے آفس آنے کے لیے کہے
گا۔ لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ میری طعبیت خراب ہے تو وہ خیریت پوچھ کر آپ کو آرام
کرنے کا کہے گا۔ بات ہورہی تھی سزا کی۔ دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہمارے ملک میں
چھوٹے جرم میں سزا ملتی ہے اور بڑے جرم میں شہرت اور عزت۔ اگر کوئی لاکھ دو لاکھ
کا قرضہ بنک سے لے اور واپس نہ کر سکے تو اس کو اتنا ذلیل کیا جاتا ہے کہ وہ خود
کشی پر مجبور ہوجاتا ہے، حالانکہ اس کے پاس دینے کے لیے رقم اور زرائع نہیں ہوتے۔
لیکن اگر کوئی سو ارب کا فراڈ کرے تو اس کو جیل میں اے کلاس ملتی ہے، ٹی وی چینلز
اس کو اس قدر کوریج دیتے ہیں کہ سلیبریٹی بن جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نے جرم
نہیں کیا ، کوئی بہت بڑی قومی خدمت کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں اگر جرم
کرنا ہے تو بڑا کرو۔ یہ ہماری تاریخ کہتی ہے۔ کیوں کہ ہمارے ملک میں سزا جرم کی
نہیں غربت اور کمزوری کی ملتی ہے۔ اگر کمزور ہے تو سزا ملے گی، اگر طاقت ور ہے تو
جرم کرنے پر عزت ملے گی۔ ہمارے ملک میں قانون کا احترام نہیں کیا جاتا ، اس کا
مذاق اُڑایا جاتاہے۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کا سب سے زیادہ مذاق خود قانون
بنانے والے اور قانون پر عمل کروانے والے
اُڑاتے ہیں۔ یعنی منتخب نمائندے اور پولیس۔
ہمارے ملک میں شریف لوگ ڈاکوؤں سے کم، پولیس سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ اگر کسی کو
پولیس روک لے تو وہ اللہ سے اپنی جیب میں پڑی رقم کی خیرمانگتا ہے اور اگر اس کو
پولیس نے اپنی موبائل میں بیٹھا لیا تو سمجھیں کہ اس کے گھر والوں کو اب وہ شخص
بناء موٹی رقم خرچ کیے نہیں ملنے والا۔ لوگ جرائم کی رپورٹ نہیں کرتے کیوں کہ پولیس
سائل کی مدد نہیں کرتی، اس کو ذلیل کرتی ہے۔ لوگوں کو سب سے زیادہ ڈر تھانے جانے
سے لگتا ہے ، چاہے وہ رپورٹ ہی کیوں نہ لکھوانی ہو۔ بڑے شہروں میں تو پھر بھی
پولیس کچھ قابو میں ہے۔ چھوٹے دیہاتوں کی خبریں پڑھیں اور وہاں جا کر دیکھیں تو آپ کو لگے گا کہ پولیس عوام کی خادم نہیں مالک ہے۔
کسی کو کوئی بھی جرم کرنا ہو، خواہ وہ خون ہی کیوں نہ ہو، اگر پہلے سے پولیس کو
اعتماد میں لے لیا جائے اور اُ ن کو خرچہ وغیرہ دے دیا جائے تو وہ خود مجرموں کی
مدد کرتے ہیں۔ ہفتوں ہفتوں رپورٹ ہی درج نہیں ہوگی۔ جب تک عدالت یا کوئی بڑی سیاسی
یا سماجی شخصیت کا دباؤ نہ ہو۔ آپ اپنے گھر کے آگے سو بلاک رکھوائیں گھر کی تعمیر
کے لیے، پولیس موبائل فورََا مٹھائی مانگنے پہنچ جائے گی۔ شہر بھر میں سرکاری
زمینوں پر غیر قانونی تعمیرات کی بھرمار ہے مگر ان کو خبر نہیں۔ حیرت کی بات ہے۔
اس کی وجہ ہے سزا کا نہ ہونا۔ صرف پولیس ہی نہیں ہر شخص اپنے طور پر قانون توڑنے
کی کوشش کرتا ہے۔ کیوں کہ پتہ ہے کہ اگر جیب میں رقم ہے تو جرم کرنے کی آزادی ہے۔
جو جرم کرو، قانون نافذ کرنے والوں کو اس کا جرمانہ بھرو اور عیش کرو۔ جب کسی
قوم میں جرم کی سزا کا خوف ختم ہو جائے تو وہ قوم انسان نہیں رہتی جانور بن
جاتی ہے اور ملک ملک نہیں رہتا جنگل بن جاتا ہے ، جہاں جس کی جتنی طاقت ہے وہ اتنا
بڑا ہےاور اپنی مرضی چلانے کا مالک ہوتا
ہے۔ قانون پر عمل کروانا جن کا کام ہے
،وہی قانون توڑنے کے راستے بتاتے ہیں تو قانون پر عمل کیسے ہوگا۔ اس کے علاوہ
ہمارے ملک میں عدالتی نظام ایسا ہے کہ اس میں ایسے سوراخ ہیں کہ اس میں چھوٹی
مچھلی یعنی چھوٹے جرم کرنے والے تو پھنس سکتے ہیں ، لیکن بڑی مچھلی یعنی بڑے جرم
کرنے والے نہایت آرام سے بچ کر نکل جاتے ہیں۔ اور راستہ خود قانون بنانے والے اور
قانون پر عمل کرنے والے بتاتے ہیں۔ اس ملک میں قانون کی حکمرانی کا یہ حال ہے کہ
ایک غریب ملازم کا ہاتھ صرف اس لیے کاٹ دیا جاتا ہے کہ اس نے بھوک سے بے حال ہوکر
کام کرنے سے پہلے کھانا مانگ لیا ۔ یہ ایک جرم ہے لیکن قانون والوں کے لیے ڈوب
مرنے کا مقام ہے کہ جب تک وزیر ِاعلیٰ نے مداخلت نہیں کی، پولیس نے اس جرم کی ایف
آئی آر نہیں کاٹی۔ مجرم کو گرفتار کرنا تو دور کی بات۔ جتنی دیر میں ایف آئی آر
کاٹی جاتی ہے، مجرم آرام سے دوسرے ملک میں جاکر سکون سے سو رہا ہوتا ہے۔ اس ملک
میں اگر کسی معصوم لڑکی کی عزت علاقے کے بااثر لوگ لوٹ لیں تو پولیس ان لوگوں کو
گرفتار کرنے کے بجائے لڑکی کے گھر والوں پررپورٹ درج نہ کروانے کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔ اس ملک میں قانون صرف مذاق
اُڑانے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اس پر عمل کرنے کے لیے نہیں۔ اگر کوئی مقدمہ درج ہوبھی جائے تو اس کا کیس اتنا
کمزور بنایا جاتا ہے کہ ملزم آرام سے ہنستے ہنستے عدالت سے قانون کا مذاق اُڑاتے
ہوئے مزید جرم کرنے کا اجازت نامہ لے کر رہا ہو جاتاہے۔ ہمارے ملک میں
عدالتیں بالکل ہسپتالوں کی طرح ہیں جیسے
ہسپتالوں میں ہوتا ہے کہ ناک کا ڈاکٹر الگ، کان کا الگ، دل کا الگ ۔ اسی طرح ہمارے
ملک میں عدالتیں ہیں۔ ہر جرم کے لیے الگ عدالت۔
چھوٹے علاقوں میں تو پورے پورے خاندانوں کو قتل کردیا جاتا ہے اور پولیس
اور قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون کی
کتابوں میں یہ ہی ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں کہ یہ جرم ہے یا نہیں اور قاتل آرام سے نہ
جانے کہاں سے کہاں غائب ہوجاتے ہیں۔ دوسرے
ممالک میں سب سے بڑا جرم اپنے اختیارات کا غلط استعمال ہے۔ ہمارے ملک میں قانون
میں اس کی زیادہ سے زیادہ سزا ایک علاقے یا شہر سے دوسرے علاقے یا شہر ٹرانسفر ہے۔
یعنی اب تک یہاں کمایا، اب وہاں کماؤ۔ جب
تک سزا کا رواج نہیں ہوگا، جرائم پر قابو پانا نا ممکن ہے چاہے جتنے قانون بنا
لیں، جنتے تھانے اور عدالتیں بنا لیں۔