پیر، 1 جولائی، 2019

عزت کا معیار
آج کل ٹک ٹاک کے نام پر جو بیہودگی ہو رہی ہے اس پر سنجیدہ حلقے سنجیدگی سے پتہ نہیں کب سوچیں گے. آزادی اظہار کا اس سے بیہودہ طریقہ آج تک نہیں دیکھا. دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ٹک ٹاک کی ویڈیوز بناٸی جاتیں ہیں لیکن اُن کے ویڈیوز اُن کے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں. پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے. یہ بات چاہے جتنی بھی فرسودہ اور روایتی لگے لیکن حقیقت یہی ہے. میں انڈیا میں بناٸے جانے والی ویڈیوز کی بات نہیں کر رہا اور نہ ہی کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ وہ حدود و قیود سے آزاد ہیں. لیکن وہ لوگ خاص طور پر لڑکیاں جو ٹک ٹاک میں بھارتی فلموں کے گندے ترین ڈاٸیلاگ پر عکس بندی کروا رہی ہیں، اُن لڑکیوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ کچھ عرصے بعد جب وہ کسی کی عزت بنیں گی تو اُس وقت کیا وہ اپنے شوہر اور بچوں سے نظر ملا پاٸیں گی. وہ تمام ویڈیوز جو یوٹیوب پر اپ لوڈ ہوتی ہیں پوری دنیا میں دیکھی جاتی ہیں. مجھے تو حیرت ہے ایسے بھاٸیوں اور باپوں پر جن کی اولادیں یہ حرکتیں کر رہی ہیں اور وہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں. معذرت کے ساتھ ایک بات کہنا چاہوں گا کہ وہ لوگ جو ٹک ٹاک بڑے شوق سے دیکھتے ہیں، ان ویڈیوز کو دیکھتے ہوٸے صرف ایک بار یہ تصور کریں کہ یہ لڑکی جو سامنے ناچ رہی ہے اُن کی خود کی بہن یا بیٹی ہے، پھر دیکھنا دل کا کیا حال ہوتا ہے. 
ٹک ٹاک ایک بہترین ذریعہ ہے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا. اس کا مثبت استعمال کریں. اپنے مثبت پیغامات لوگوں تک پہنچاٸیں. ایسے پیغامات جن کو آپ دوسروں کے سامنے سر اُٹھا کر بیان کر سکیں. ہینڈی کرافٹس، کھانے پکانے کی ترکیبیں، گھر سجانے اور سنوارنے کے طریقے، سیکڑوں موضوعات ہیں جن پر مثبت اور تعمیری ویڈیوز اور ٹک ٹاک بناٸی جا سکتی ہیں. تو پھر ہم بےوقوفوں کی طرح بھارتی بیہودگیوں کی تقلید کیوں کریں. اپنی صلاحیتوں کو کاپی پیسٹ کرنے کے بجاٸے نٸی اور مثبت کاموں میں استعمال میں لاٸیں. عزت کا معیار وہ بناٸیں جو ہے، وہ مت بناٸیں جو ہمیں ذلیل کرواٸے. 
میں نے ایک حدیث کے بارے میں سنا ہے جو کہ کم و بیش یہ ہے "ایک عورت جو بے پردہ رہتی ہے اور اسی حالت میں دنیا سے جاتی ہے، اپنے ساتھ چار جنتی مردوں کو جہنم میں لے کر جاٸے گی. باپ، بھاٸی، شوہر اور بیٹا. تو کیوں آپ کسی کو جہنم میں لے جانے کی ذمہ دار بن رہی ہیں. بحیثیت انسان، مسلمان اور پاکستانی ہم سب کا فرض ہے کہ ہمارے کردار، افکار اور اعمال میں بھی یہ نشانیاں نظر آٸیں. کسی کی تقلید کرنے سے پہلے دیکھ لیں کہ اس تقلید میں ہم کہیں خود کو ذلیل تو نہیں کر رہے.  

اتوار، 30 جون، 2019

لاحاصل زندگی
یہ زندگی بھی عجیب ہے. ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں اندھیری اور تاریک رات میں کسی اندھیرے راستے پر چلا جا رہا ہوں. نہ راستے کا پتہ ہے اور نہ منزل کی خبر. بے مقصد محنت اور لا حاصل سفر. نہ راستے کی خوبصورتی نظر آرہی ہے نہ اپنی. ایسی بے مقصد زندگی کو کیا نام دوں جہاں خود کچھ پتہ نہ ہو. اپنا وجود کپڑے کے ایسی کُترنوں جیسا لگتا ہے کہ جس کا وجود بنایا ہی ایسا گیا ہو کہ جو بظاہر خوبصورت کپڑے کا  حصہ ہو لیکن اصل میں کسی کام کا نہیں. ایسی زندگی جو ایک جانور گزارتے ہیں. صبح اُٹھنا، خوراک کے لیے حالات، اپنے جیسے انسانوں، قدرت اور نصیب سے لڑنا، آگے بڑھنے اور زندہ رہنے کے لیے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو نقصان پہچانا، ایک بے مقصد دن گزارنا جس کا کوٸی فاٸدہ نہیں اور پھر رات کو تھک کر کسی کونے میں دُبک کر سو جانا. ایسی زندگی جس کا کوٸی مقصد نہیں، ایسا وجود جس کے ہونے یا نہ ہونے سے کبھی کسی کو کوٸی فرق نہیں پڑتا. یہ زندگی بھی کوٸی زندگی ہے. ایسا لگتا ہے کہ زندگی خود زندگی پر بوجھ ہے. ایسا بوجھ جس کے وزن سے جسم ہی نہیں، روح بھی کُچلی جا رہی ہو. اتنی ساری زندگی گزانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اس زندگی میں دوسروں کے لیے تو چھوڑو، اپنے لیے بھی کچھ نہ کر پاٸے. ساری زندگی یہ سوچ کر سوتے کہ شاٸد کل اچھا ہو. اس اچھا کے لیے ہر کوشش کر ڈالی. لیکن جب کوشش انجام کو پہنچتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جہاں سے کوشش شروع کی تھی، وہاں سے آگے بڑھنے کے بجاٸے اس سے بھی پیچھے چلے گٸے. دنیا میں کوٸی ایسا نہیں جو حقیقت میں یہ کہے کہ اس کے لیے کچھ کیا ہو. ہر ایک کو شکایت ہی ہے. اپنا وجود دنیا میں سب سے زیادہ بے مقصد اور فالتو نظر آتا ہے. شاٸد قدرت نے دنیا میں اس لیے بھیجا ہے کہ دنیا عبرت حاصل کرے.