بدھ، 16 نومبر، 2016

قصّہ اسائنمنٹ کا

یہ قصّہ ہے ایک اسائنمنٹ کا جو ہمارے ایک ہر دل عزیز استاد نے ہمیں پہلے سمیسٹر کے آخر میں دیا۔ قصّہ تو کلاس کے طالبِ علموں کا ہے، لیکن چوں کہ اسائنمنٹ سے متعلق ہے اس لیے اسے اسائنمنٹ کا قصّہ ہی کہیں گے۔ اس اسائنمنٹ کے ملنے سے پہلے ہماری کلاس کے طالبِ علموں میں اتنا اتحاد تھا کہ ہر کام میں ساتھ ہوتے تھے یہاں تک کہ چھٹی بھی اس طرح کرتے تھے کہ استاد کو لگتا تھا کہ وہ اتوار کو کلاس لینے آگیا ہے، یعنی سب غائب۔ خیر اب بات کرتے ہیں اسائنمنٹ کی۔ تو ہوا کچھ یوں کہ محترم استاد صاحب نے کلاس میں تین گروپ بنا نے کا کہا تو کلاس کی حالت ایسی ہوگئی جیسی ایم کیو ایم کی ہوئی ۔ کسی کو نہیں پتا کہ وہ کس گروپ میں ہے۔ کچھ دنوں میں ہی گروپ بن گئے اور لوگ الگ الگ گروپ میں تقسیم ہوگئے۔ اب ایک کلاس تین کلاس بن چکی تھی۔ اب باری آئی کہ اسائنمنٹ بنایا کس موضوع پر جائے۔ تو چلو سب موضوع ڈھونڈو۔ جیسے کسی سرکاری ملازم کنوارے بھائی کا رشتہ ڈھونڈا جاتا ہے۔ ہرموضوع میں خرابی نکال نکال کر آخرکار سب کو موضوع مل ہی گیا۔ اب باری تھی موضوع کا نام کرن کی یعنی نام رکھنےکی۔ اب نام رکھتے رکھتے ہفتے گزر گئے۔ نام یوں ڈھونڈا جا رہا تھا گویا نام رکھنے کا اسائنمنٹ ملا ہو اور نام رکھتے ہی اسائنمنٹ مکمل ہوجائے گا۔ نام بھی رکھ لیا گیا خدا خدا کرکے۔ ابھی تو ابتدا تھی۔ سب کام پر لگ گئے اسائنمنٹ کے۔ اب کسی کو پتا نہیں تھا کہ کون کس گروپ میں ہے تو جوں ہی ملاقات ہوتی تو پوچھتے کہ تم کس گروپ میں ہو۔ اور جب پتا چل گیا تو پھر جب ملاقات ہوتی اور علیک سلیک کے بعد فورا کہتے کہ تمہارا گروپ وہاں بیٹھا ہے یا وہ خود ہی پوچھ لیتا کہ میرے گروپ کے لوگ کہاں ہیں کہ جیسے  کچھ دیر یہاں کھڑا رہا تو یا تو اس کو چھوت کی بیماری لگ جائے گی یا ہمیں۔ اب یہ ہونے لگا کہ جو کلاس ایک ساتھ ہر جگہ نظر آتی تھیں، وہاں تین تین کلاسیں نظر آنے لگیں۔ ڈیپارنمنٹ کے ہال میں، کینٹین میں، ہوٹل میں، یہاں تک کہ کلاس میں بھی۔۔ ہمارے استادِ محترم نے ایک ہی کلاس میں تین کلاسیں بنا دیں۔ سب اپنے اپنے کام کو دوسروں سے اس طرح چھپارہے تھے جیسے ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں لوگ رقم چھپاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے شریف وزیرِ اعظم نیریندرہ مودی نے500 اور 1000 کے نوٹ ہی بند کروانا پڑے ۔ اپنے اپنے اسائنمنٹ کے معلومات پر ہم جس قدر تحقیق کر رہے تھے کہ اس سے آدھی سے آدھی تحقیق اگرسِرل آلیمیڈا کرلیتا تو بےچاریے کا نام ای۔سی۔ایل میں نہ ڈالنا پڑتا۔ ہمارا یہ حال تھا کہ ہمیں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ ہمارے دنیا میں آنےاور ڈیپارنمنٹ میں داخلہ لینے کا مقصد ہی یہی ایک اسائنمنٹ بنانا ہے۔ ہر شخص ہاتھ ملا کربندے کی خیریت بعد میں پوچھتا تھا، اسائنمنٹ کی خیریت پہلے پوچھتا تھا۔ گھر میں بھی شائد یہی حال ہوگا کہ والد کو سلام یوں کرتا ہوگا۔ "اسلام وعلیکم ابو، اسائنمنٹ کا کیا ہوا۔" یا والدہ سے کھانا یوں مانگتا ہوگا "امی اسائنمنٹ تیاد ہے تو دیدیں، یونیورسٹی جانا ہے۔" طالبِ علم تو شائد سوتے میں بھی اسائنمنٹ اسائنمنٹ بڑبڑاتے ہوں گے۔ اسائنمنٹ بناتے بناتے پتا ہی نہیں چلا اور  امتحان سر پر آگئے تو یاد آیا کہ بھائی اور بھی  تو مضامین ہیں جن میں پاس ہونا بھی ضروری ہے ورنہ ایک اسائنمنٹ کی وجہ سےسارے پرچوں میں تو پاس ہونے سے رہے۔  زندگی میں اسائنمنٹ اور  بنائے مگر ایسا اسائنمنٹ کبھی نہیں بنایا۔ اگر قائدِ اعظم کو ایسا اسائنمنٹ بنانے کو ملتا تو شائد وہ بھی وکیل نہ بن پاتے۔ شائد اسی وجہ سے دنیا کے تمام بڑے لوگ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے ورنہ وہ اسائنمنٹ مکمل کرتے رہ جاتے اور دوسرے ان سے آگے نکل جاتے۔ اب اسائنمنٹ جمع تو کروادیا ہے۔ دیکھیں کتنے نمبر آتے ہیں اس اسائنمنٹ میں۔
خدا خیر کرے ۔

محمد ندیم جمیل – 16 نومبر،  2016

بدھ، 2 نومبر، 2016

شائد کبھی نہیں


کل میں قائد اعظم کے مزار پر گیا ، سوچا کہ آج قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جائے اور قائد اعظم کو سلام کیا جائے۔ جب میں مزارکے احاطے میں داخل ہوا تو قائد اعظم کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ قائد اعظم کے کروار ، ان کے مضبوط ارادوں  کے بارے میں سوچ  رہا تھا۔  جب میں مزار   کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگا تو سوچنے لگا کہ کیا میں اس شخص کے مزار پر جا کر ان سے آنکھ ملانے کے قابل ہوں جس نے اپنا سب کچھ اس ملک کے لوگوں  کے لیے قربان کر دیا۔ اپنا پیشہ ، اپنا گھر، اپنا کاروبار، اپنا مستقبل ، یہاں تک کہ اپنی جان بھی۔ اُنھوں نے اپنا علاج محض اس وجہ سے نہیں کروایا کہ اگر ہندؤں اور انگریزوں کو اُن کی بیماری کا پتا چل گیا تو شائد برِصغیر کی تقسیم کے معاملہ سستی کا شکار ہوسکتا ہے ۔ خود لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے الفاظ تھے "اگر ہمیں پہلے پتہ ہوتا کہ محمد علی جناح اتنے بیمار ہیں تو ہم بر ِ صغیر کی تقسیم روک کر دیتے، کیوں کہ اُن کے بعد  کوئی نہیں ہے جو مسلمانوں کے لیے ملک آزاد کرواسکتا۔" اِس کے علاوہ  لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مزید کہا " اگر مسلم لیگ میں 100 گاندھی  اور 100 نہرو ہوتے اور ایک محمد علی جناح نہیں ہوتے تو پاکستان کبھی نہیں بنتا۔ " کیا ہم اس شخص سے آنکھ ملانے کے قابل ہیں جنہوں نے اپنے بھائی کا تعارفی رقعہ صرف اس لیے پھاڑ کر پھینک دیا تھا کیوں کہ اس نے  اس رقعہ پربرادر آف گورنر جنرل آف پاکستان کے الفاظ تحریر کیے تھے۔ جو زیارت جیسے سرد علاقےمیں ایک روپے کا موزہ نہیں لیتے ۔ اس لیے نہیں کہ وہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے بلکہ اس وجہ سے کہ پاکستان جیسے غریب ملک کے گورنر جنرل کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اتنا مہنگا موزہ خرید سکے۔ جو سرکاری سامان کی فہرست میں فاطمہ جناح کے کچھ سامان کا نام دیکھ کر ناراض ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتیں۔ جو ایک نرس کے تبادلے  کرنے پر محکمہ ِ صحت سے  معافی مانگتے ہیں اور تبادلہ کے احکامات واپس لیتے ہیں کیوں کہ صحت ان کا محکمہ نہیں تھا اور ان کو اس تبادلے کا کوئی حق نہیں تھا۔ جو پاکستان بننے کے چند دنوں کے بعد والی عید کی نماز پڑھنے مسجد جاتے ہیں اور آخری کی صفوں میں بیٹھتے ہیں کیوں کہ وہ دیر سے آئے تھے۔ جو اپنے  اور دوسرے محکموں کے سگریٹریوں کو کہتے ہیں کہ رف پیڈ میں دونوں طرف پینسل سے لکھو  تاکہ مٹا کر دوبارہ استعمال کیا جاسکے۔ جو کابینہ کی میٹنگ میں چائے یا کافی کا منع کر دیتے ہیں کیوں کہ یہ ایک غریب اور نیا ملک ہے جہاں اِن عیاشیوں کی اجازت نہیں ہونی جاہیے۔ جو اپنی اس بیماری میں بھی لندن یا کسی دوسرے ملک جا کر اپنا علاج نہیں کرواتے۔ جو اپنی تنخواہ صرف ایک روپیہ رکھتے ہیں کیوں کہ ملک کی معیشت اچھی نہیں تھی، لیکن تنخواہ رکھتے ضرور ہیں کیوں کہ پاکستان خود دار ملک ہے، یہ کسی کا احسان نہیں رکھتا۔  جو اتنے امیر تھے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں جاکر اپنا علاج اپنے خرچے  پر کرواسکتے تھے، لیکن نہیں کروایا۔ جنہو ں نے پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور پاکستان نے  انھیں کیا دیا۔ جب وہ اپنی بیماری میں زیارت سے کراچی آئے تو اُن کو لانے کے لئے ایسی ایمبولینس بھیجی جس میں نہ پیٹرول تھا اور نہ اسٹپنی۔ نہ کوئی پروٹوکول ، نہ گاڑیوں کی قطاریں، کچھ بھی نہیں ۔ راستے میں ایمبولینس بھی خراب ہو گئی اور ان کو جنہوں نے پاکستان بنایا، انھیں ایک ریڑھے میں ڈال کر ہسپتال لایا گیا۔  میں مزار کی سیڑھیوں سے ہی واپس آگیا۔ آج بحیثیت انسان، بحیثیت مسلمان، بحیثیت پاکستانی مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں اُن کے مزار پر جاکر حاضری دے سکوں اور اُن سے آنکھ ملا سکوں۔ کیا مجھ میں کبھی اتنی ہمت ہوگی یا میں کبھی اِس قابل ہو سکوں گا کہ اُن سے آنکھ ملا سکوں؟ کبھی نہیں، شائد کبھی نہیں۔

محمد ندیم جمیل – جامعہ ِکراچی