کل میں قائد اعظم کے مزار پر گیا ، سوچا کہ آج قائد اعظم کے
مزار پر حاضری دی جائے اور قائد اعظم کو سلام کیا جائے۔ جب میں مزارکے احاطے میں
داخل ہوا تو قائد اعظم کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ قائد اعظم کے کروار ، ان کے مضبوط
ارادوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
جب میں مزار کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگا تو سوچنے لگا کہ کیا
میں اس شخص کے مزار پر جا کر ان سے آنکھ ملانے کے قابل ہوں جس نے اپنا سب کچھ اس
ملک کے لوگوں کے لیے قربان کر دیا۔ اپنا
پیشہ ، اپنا گھر، اپنا کاروبار، اپنا مستقبل ، یہاں تک کہ اپنی جان بھی۔ اُنھوں نے
اپنا علاج محض اس وجہ سے نہیں کروایا کہ اگر ہندؤں اور انگریزوں کو اُن کی بیماری
کا پتا چل گیا تو شائد برِصغیر کی تقسیم کے معاملہ سستی کا شکار ہوسکتا ہے ۔ خود
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے الفاظ تھے "اگر ہمیں پہلے پتہ ہوتا کہ محمد علی جناح اتنے
بیمار ہیں تو ہم بر ِ صغیر کی تقسیم روک کر دیتے، کیوں کہ اُن کے بعد کوئی نہیں ہے جو مسلمانوں کے لیے ملک آزاد
کرواسکتا۔" اِس کے علاوہ لارڈ ماؤنٹ
بیٹن نے مزید کہا " اگر مسلم لیگ میں 100 گاندھی اور 100 نہرو ہوتے اور ایک محمد علی جناح نہیں
ہوتے تو پاکستان کبھی نہیں بنتا۔ " کیا ہم اس شخص سے آنکھ ملانے کے قابل ہیں
جنہوں نے اپنے بھائی کا تعارفی رقعہ صرف اس لیے پھاڑ کر پھینک دیا تھا کیوں کہ اس
نے اس رقعہ پربرادر آف گورنر جنرل آف
پاکستان کے الفاظ تحریر کیے تھے۔ جو زیارت جیسے سرد علاقےمیں ایک روپے کا موزہ
نہیں لیتے ۔ اس لیے نہیں کہ وہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے بلکہ اس وجہ سے کہ
پاکستان جیسے غریب ملک کے گورنر جنرل کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اتنا مہنگا موزہ
خرید سکے۔ جو سرکاری سامان کی فہرست میں فاطمہ جناح کے کچھ سامان کا نام دیکھ کر
ناراض ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتیں۔ جو ایک نرس کے تبادلے کرنے پر محکمہ ِ صحت سے معافی مانگتے ہیں اور تبادلہ کے احکامات واپس
لیتے ہیں کیوں کہ صحت ان کا محکمہ نہیں تھا اور ان کو اس تبادلے کا کوئی حق نہیں
تھا۔ جو پاکستان بننے کے چند دنوں کے بعد والی عید کی نماز پڑھنے مسجد جاتے ہیں
اور آخری کی صفوں میں بیٹھتے ہیں کیوں کہ وہ دیر سے آئے تھے۔ جو اپنے اور دوسرے محکموں کے سگریٹریوں کو کہتے ہیں کہ
رف پیڈ میں دونوں طرف پینسل سے لکھو تاکہ
مٹا کر دوبارہ استعمال کیا جاسکے۔ جو کابینہ کی میٹنگ میں چائے یا کافی کا منع کر
دیتے ہیں کیوں کہ یہ ایک غریب اور نیا ملک ہے جہاں اِن عیاشیوں کی اجازت نہیں ہونی
جاہیے۔ جو اپنی اس بیماری میں بھی لندن یا کسی دوسرے ملک جا کر اپنا علاج نہیں
کرواتے۔ جو اپنی تنخواہ صرف ایک روپیہ رکھتے ہیں کیوں کہ ملک کی معیشت اچھی نہیں
تھی، لیکن تنخواہ رکھتے ضرور ہیں کیوں کہ پاکستان خود دار ملک ہے، یہ کسی کا احسان
نہیں رکھتا۔ جو اتنے امیر تھے کہ دنیا کے
کسی بھی حصہ میں جاکر اپنا علاج اپنے خرچے پر کرواسکتے تھے، لیکن نہیں کروایا۔ جنہو ں نے
پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور پاکستان نے انھیں کیا دیا۔ جب وہ اپنی بیماری میں زیارت سے
کراچی آئے تو اُن کو لانے کے لئے ایسی ایمبولینس بھیجی جس میں نہ پیٹرول تھا اور
نہ اسٹپنی۔ نہ کوئی پروٹوکول ، نہ گاڑیوں کی قطاریں، کچھ بھی نہیں ۔ راستے میں
ایمبولینس بھی خراب ہو گئی اور ان کو جنہوں نے پاکستان بنایا، انھیں ایک ریڑھے میں
ڈال کر ہسپتال لایا گیا۔ میں مزار کی
سیڑھیوں سے ہی واپس آگیا۔ آج بحیثیت انسان، بحیثیت مسلمان، بحیثیت پاکستانی مجھ
میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں اُن کے مزار پر جاکر حاضری دے سکوں اور اُن سے آنکھ
ملا سکوں۔ کیا مجھ میں کبھی اتنی ہمت ہوگی یا میں کبھی اِس قابل ہو سکوں گا کہ اُن
سے آنکھ ملا سکوں؟ کبھی نہیں، شائد کبھی نہیں۔
محمد ندیم جمیل – جامعہ ِکراچی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں