بدھ، 26 مئی، 2021

 

اسلام اور مسلمان

محمد ندیم جمیل – ایم فل – شبعہِ ذرائع ابلاغ، جامعہ کراچی            22 مئی 2021

 

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مبینہ جنگ بندی ہوگئی ہے جس کو پوری عالمِ اسلام بلخصوص پاکستان بہت بڑی کامیابی بتا رہے ہیں۔ ساتھ ہی پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کامیابی ابھی بہت دور ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی خبر آئی ہے کہ اسرائیل نے جنگ بندی کے صرف 12 گھنٹوں کے بعد مسجدِ اقصٰی میں جمعہ کے نماز کی ادائیگی کے بعد خوشی مناتے فلسطینی مسلمانوں پر آنسو گیس کے گولے داغے ہیں اور ان کو منتشر کرنے کے لیے ربر کی گولیاں استعمال کی ہیں۔ کچھ فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں اور کچھ کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔ اس پر کسی بھی جانب سے یعنی حماس، اسلامی ممالک یا پاکستان کے وزارتِ خارجہ کی جانب سے کوئی آفیشل بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ لگتا ہے کہ ابھی تک جنگ بندی کی خوشیاں منانے اور کریڈٹ لینے سے فرصت نہیں ملی ہے۔

اسرائیل اور فلسطین دونوں اس جنگ بندی کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔ حماس نے بھی اس کو اپنی فتح قراد دی ہے۔ جنگیں قوموں کے نظریات اور مستقبل تبدیل کر دیتی ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں بھی یہی ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد بڑی طاقتوں نے محسوس کیا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل پیدا کرنے کا طریقہ ہے۔ اسی لیے دوسری جنگِ عظیم کے بعد کسی بھی بڑے ملک نے اپنی سرزمین پر جنگ نہیں لڑی۔ جن ممالک میں جنگیں لڑی گئیں، جیسے کہ ایران، عراق، شام، لبنان، افغانستان، فلسطین اور بیروت وغیرہ، تو وہاں کا حشر دیکھا جا سکتا ہے۔ ہر ملک اپنی سرزمین پر جنگ لڑنے سے خوف زدہ ہے اور اس جنگ میں جنگ بندی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ جنگ اسرائیل کی سرزمین تک پہنچ گئی تھی۔ اگر یہ جنگ صرف فلسطین یا غزہ میں لڑی جا رہی ہوتی تو اسرائیل اس جنگ بندی پر کبھی راضی نہیں ہوتا۔

اصل چیز جنگ کا شروع ہونا، جنگ بندی کا ہونا یا جنگ کا نہ ہونا نہیں ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ کیا یہ جنگ دوبارہ ہو گی یا نہیں۔ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جنگ بندی اسی طرح ہے جیسے کہ کسی باکسنگ کے مقابلے میں دو راؤنڈ کے دوران تھوڑا سا وقفہ ہوا ہے۔ فلسطین کا تو پتہ نہیں، لیکن اسرائیل ضرور اپنی کمیوں اور کوتاہیوں پر نظرِ ثانی کرے گا۔ اس کو اپنی بڑی بڑی کوتاہیوں کا احساس ہوگیا ہے۔ جیسے کہ اس کا اینٹی میزائل سسٹم آئرن ڈوم جو کہ دنیا کا سب سے بہترین اینٹی مسائل ڈیفنس سسٹم کہلاتا ہے، ایک مخصوص تعداد تک ہی مزائیلوں کو روک سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی اسرائیل پر 300 سے 500 میزائل فائیر کرے اور اس کے ساتھ ہی ایٹمی میزائیل فائر کر دے تو یہ نظام مفلوج ہو جائے گا اور اسرائیل تباہ ہو سکتا ہے۔ اتنی تعداد میں میزائیل کا رکھنا اور فائر کرنا جب حماس جیسی تنظیم کے لیے ممکن ہے تو جو ممالک اسرائیل کے آس پاس ہیں، ان کے لیے کتنا آسان ہوگا۔ دوسری بات اسرائیل نے اس سسٹم پر انتا بھروسہ کیا ہوا تھا کہ مزید کسی تیاری کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ جس کی وجہ سے آئرن ڈوم سے بچنے والے میزائیلوں نے اسرائیل کو نقصان پہنچایا۔ ساتھ ہی یہ بات بھی دیکھنی ہوگی کہ اسرائیل اس جنگ میں سفارتی طور پر ناکام ہو گیا۔ اس کے حمایتی ممالک کی تعداد یقینی طور پر بہت زیادہ رہی۔ 25 ممالک اس کے ساتھ کھڑے نظر آئے جن میں اسڑیلیا، برطانیہ، امریکہ، جرمنی، فرانس، انڈیا اور دوسرے ممالک شامل تھے، لیکن یہ اس لیے ساتھ نہیں تھے کہ یہ جنگ اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ تھی، بلکہ اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ یہ جنگ مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان تھی اور مسلمانوں سے عناد رکھنے والے ممالک اسرائیل کی پشت پر تھے دوسری وجہ یہ تھی کہ کچھ ممالک اس وجہ سے ساتھ دے رہے تھے کہ یہ فلسطین اور اسرائیل کی جنگ نہیں تھی بلکہ بقول اسرائیل کے اس پر ایک دہشت گرد تنظیم حماس نے حملہ کیا ہے اور وہ اس کا جواب دے رہا ہے۔ فلسطین تو جواب دینے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ کیوں کہ فلسطین کے پاس کوئی فوج ہی نہیں۔ حالانکہ یہی بات فلسطین کے حق میں گئی اور اسرائیل کے وزارتِ خارجہ اپنی پوری کوشش کے باوجود یہ ثابت نہیں کر پائی کہ فلسطین حماس کو پناہ دے رہا ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل کا دفعائی نظام بہت مہنگا ہے اور اس کا بہت زیادہ استعمال معاشی طور پر کسی بھی ملک کے لیے ناقابلِ برداشت ہو سکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آئرن ڈوم کا ایک میزائیل ایک لاکھ امریکن ڈالرز کے قریب قریب پڑتا ہے۔ اور اگر ایک وقت میں تین سو میزائیل فائر کرنے پڑے تو اندازہ لگا لیں کہ یہ کتنا مہنگا سودا ہو سکتا ہے۔ جب کہ جو میزائیل حماس داغ رہے تھے وہ نہایت سستے اور روائیتی میزائیل تھے۔

اس بات کو بھی مدِ نظر رکھنی چاہیے کہ اگر اس جنگ میں حماس کے ساتھ حزب اللہ بھی شامل ہو جاتی تو جنگ کا نقشہ کیا ہو سکتا تھا، کیوں کہ حزب اللہ بہرحال حماس سے زیادہ فعال اور طاقتور تنظیم ہے۔  

یہ ایک ٹیسٹ رن یا آزمائیشی جنگ تھی، جس میں اسرائیل کو اپنی کوتاہیاں اور کمیاں نظر آئیں اور لازمی طور پر آنے والے دنوں میں یہ ان کمیوں کو پوری کرنے کی کوشش کرے گا۔ جب کہ اسلامی ممالک اپنے اپنے فرائض پورے کرکے اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ جائیں گے۔ 

اسرائیل کا 2020 کا دفاعی بجٹ 21 بلین ڈالرز سے زیادہ رہا ہے۔ اور وہ ایک ایسے ملک سے جنگ لڑ رہا تھا، جس کی اپنی کوئی فوج ہی نہیں اور اس ملک کے پاس اپنی دفاع کرنے کی صلاحیت ہی نہیں اور اسرائیل کا جواب ایک ایسی تنظیم دے رہی تھی جس کو عالمی طور پر ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں واقعی اسرائیل کے لیے اور اسرائیل کی دفاعی ماہرین کے لیے سوچنے کا مقام اور لحمہِ فکریہ ہے۔

اگر اپنے دفاع پر خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست پر نظر دوڑائی جائے تو ابتدائی 15 ممالک میں صرف سعودی عرب ہی نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اسلامی ملک موجود نہیں ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ 72 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے جب کہ پاکستان نے گذشتہ سال دفاع کے لیے 1.7 ارب ڈالرز رکھے تھے۔

ایسا کیوں ہے کہ زیادہ تر اسلامی ممالک غریب ہیں اور جو امیر ممالک ہیں، وہ بھی قدرتی وسائل سے یعنی کہ تیل یا گیس سے کما رہے ہیں۔ کسی صنعتی یا جدید ترقی میں ان کا نام شامل نہیں۔ یہاں پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہوگا کہ دبئی اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک میں لاکھوں لوگ جاتے ہیں جن میں سے بیشتر کا تعلق غیر اسلامی ممالک سے ہوتا ہے تو معذرت کے ساتھ بتادوں کہ وہ یہ لوگ وہاں عیاشی کے نظریہ کے ساتھ جاتے ہیں، جیسے کہ وہ اپنے ممالک میں پب یا جوا کھیلنے جاتے ہیں اور اگر وہ وہاں شاپنگ کرتے ہیں تو ان میں زیادہ تر ان ہی غیرمسلم ممالک کی تیار کردہ اشیاء ہوتی ہیں یا بین القوامی کمپنیوں کا سامان ہوتا ہے جس کا آخرکار فائدہ ان غیرمسلم ممالک کو ہی ہوتا ہے۔

غیراسلامی ممالک کی ترقی کی وجوہات میں سے ایک وجہ ان ممالک میں معاشی منصوبہ بندی کا تسلسل ہے۔ نئی حکومت پرانی حکومت کے بنائے گئے منصوبوں کو نظرِآتش نہیں کرتی۔ وہ کبھی بھی 5 یا 10 سال کے لیے منصوبہ بندی نہیں کرتے، وہ 50 سالوں کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اس کو تسلسل کے ساتھ چلاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہاں زیادہ تر لوگ سچ بولتے ہیں۔ کم سے کم خود سے تو سچ بولتے ہیں۔ کیوں کہ جب تک سچ تسلیم نہیں کیا جائے گا، اپنی کمزوریوں اور کمیوں پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ ان ممالک کا ٹیکس کا نظام بہت بہتر ہے۔ جو پیسہ عوام سے لیا جاتا ہے، عوام پر ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ کرپشن ہے، لیکن کم ہے۔ وہاں اگر کوئی قانون ہے تو اس قانون کی پاسداری بھی ہوتی ہے۔ وہ خود بھی قانون پر عمل کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی قانون پر عملدرامد کرواتے ہیں۔ وہاں دو قانون نہیں، سب کے لیے ایک ہی قانون ہے۔ برطانیہ میں دو قانون لاگو ہیں، ایک عام عوام کے لیے اور ایک شاہی خاندان کے لیے ۔ لیکن یہ اعلانیہ اور مروجہ ہے۔ چھپا ہوا نہیں۔ کچھ عرضہ پہلے سعودی عرب میں بہت سارے شہزادوں کو مالی بےضابتگی کی وجہ سے گرفتار کیا گیا اور پھر رقم لے کر ان کو رہا کیا گیا۔ اگر ان قوانین پر نظر ڈالیں جو کہ ان ممالک میں رائج ہیں تو ان کے ایجاد کرنے والے اور بنانے والے مسلمان ہی نظر آئیں گے۔ اگر انصاف اور قانون کی بات کی جائے تو حضورﷺ کے دور کا وہ مشہور واقعہ موجود ہے کہ ایک خاتون جس کا نام فاطمہ تھا، کے ہاتھ کو چوری کے الزام میں کاٹا جا رہا تھا۔ وہاں ایک شخص نے اس کی سفارش کرنے کی کوشش کی تو حضورﷺ کے فرمان کو مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ اگر اس کی جگہ فاطمہ بنتِ محمدﷺ بھی ہوتی تو اس کو بھی یہی سزا دی جاتی۔ ایسے بے شمار واقعات ملیں گے۔ لیکن موجودہ دور میں اسلامی ممالک میں انصاف کا وہ معیار موجود نہیں۔ مغربی ممالک میں بےروزگاری اور اولڈ ایج کے نام پر معاوضہ ملتا ہے، جو کہ اتنا ہوتا ہے کہ اس شخص کے لیے کافی ہوتا ہے۔ لیکن کسی اسلامی ملک میں یہ رائج نہیں ہے۔ علم کی محبت جو کبھی مسلمانوں کی میراث تھی، اب ناپید ہے۔ اگر ٹاپ کے 200 جامعات پر نظر دوڑائی جائے تو 122ویں نمبر پر سعودی عرب کی جامعہ، کنگ سعود یونیورسٹی اور 150ویں نمبر پر ترکی کی ایک جامعہ، انادولو یونیورسٹی نظر آتی ہے۔ باقی تمام جامعات غیرمسلم ممالک میں موجود ہیں۔

مسلمان معاشی، معاشرتی، سماجی، تعلیمی اور عسکری ہر میدان میں غیرمسلم ممالک سے پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب کچھ بننے کے لیے تیار ہیں سوائے مسلمان بننے کے۔ اس بات کو نظر میں رکھیں کہ غیرمسلموں کو مسلمانوں سے ڈر نہیں لگتا، اسلام سے لگتا ہے۔ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک مسلمانوں میں اسلام موجود تھا، وہ ایک مسلمان پہلے تھا، باقی سب بعد میں تھا تو غالب تھا۔ اگر مسلمانوں سے اسلام کو نکال دیا جائے تو باقی کچھ نہیں رہتا۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔  

مغربی ممالک کو عرب ممالک سے کوئی خطرہ نہیں، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ان کے مخالف نہیں کھڑے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ مسلمان نہیں، بے شک وہ مسلمان ہیں، لیکن ان میں اسلام مکمل طور پر موجود نہیں۔ اسی طرح غیر عرب ممالک کی بات کی جائے تو ان ممالک میں غیرمسلموں کے مقابلے میں مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کے لیے زیادہ نفرت پائی جاتی ہے۔ اگر آج ایران اور سعوی عرب یا ترکی اور سعوی عرب ایک دوسرے کے مخالف ہیں تو اس کی وجہ فرقہ پرستی ہے۔ عرب کو ترکی اور ایران کے مقابلے میں امریکہ پر زیادہ اعتبار ہے۔ اسی طرح شام، لبنان، عراق، متحدہ عرب امارات، کویت اور دوسرے اسلامی ممالک ہیں۔ اس بات کا اندازہ علامہ اقبال نے آج سے سو سال پہلے ہی لگا لیا تھا۔ ان کی شاعری پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے اس طرزِ عمل سے کس قدر مایوس اور دلگرفتہ تھے۔

مسلمان آج جس مقام پر کھڑے ہیں، اس کے سب سے بڑے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ مسلمانوں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا، جب تک مسلمان خود نہ چاہیں۔ پہلے کے ایک سلطان صلاح الدین کا سامنا پورا یورپ مل کر نہیں کر سکا تھا اور آج 57 مسلم ممالک مل کر ایک اسرائیل سے اپنی بات نہیں منوا سکتے، جب تک غیرمسلم ممالک ساتھ نہ دیں۔ یہ ایک المیہ ہے اور اس کے ذمہ دار خود مسلمان ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہم غیرمسلم سے کم ڈرتے ہیں، دوسرے مسلمان سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب ہمیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو ہم غیرمسلم ممالک کے در پر جا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ جب تک مسلمان اپنے آپ میں اسلام کو مکمل داخل نہیں کریں گے، فتحیاب نہیں ہوسکتے۔ مسلم ممالک کو اپنے آپ کو وہاں کھڑا کرنا ہوگا کہ جہاں ان کی بات عزت و احترام کے ساتھ سُنی جائے، بجائے اس کے کہ مسلمان ملکوں کو اپنی حفاظت کے لیے غیرمسلم ممالک سے مدد لینی پڑے۔ پاکستان کے صدر عارف علوی نے انٹرویو میں بہت صحیح بات کہی کہ اُمتِ مسلمہ اس وقت بہت کمزور ہے اسی وجہ سے دوسروں کی باتیں سُننی پڑتی ہیں۔ مسلم ممالک کو اپنی بقاء کے لیے اپنے آپ کو معاشی، معاشرتی، عسکری اور اخلاقی طور پر مضبوط کرنا ہوگا۔ اور اس کا واحد راستہ اسلام پر مکمل چلنا اور اللہ پر بھروسہ کرنا ہے۔ مسلمانوں کو وہ ساری خصوصیات اپنے اندر لانی ہوں گی۔ جو اسلام بتاتا ہے۔ ایک چھوٹی سی بات ہے کہ کیا سارے اسلامی ممالک میں اتنی ہمت ہے کہ وہ ملک کر کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے غیراسلامی ملک کے خلاف دین کے نام پر جنگ چھیڑ سکیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں، کیوں کہ ایسا ہوتے ہی تمام غیرمسلم ممالک اپنے آپسی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ایک ہوجائیں گے۔ وہ کھل کر اس ملک کا ساتھ دیں گے۔ صرف اخلاقی طور پر نہیں، بلکہ معاشی اور عسکری طور پر بھی۔ لیکن یہ اتحاد مسلمانوں میں نہیں۔ جس دن یہ اتحاد پیدا ہو گیا، غیرمسلم ممالک میں سے کسی کی ہمت ہی نہیں ہو گی کہ وہ کسی اسلامی ملک کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھ سکے۔   

جمعہ، 21 مئی، 2021

 

مسئلہِ فلسطین اور عالمِ اسلام                     

محمد ندیم جمیل، ایم-فِل، ماس کام، جامعہ کراچی                           16 مئی 2021



آج کل ہر طرف اسرائیل اور فلسطین کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہر دوسرا شخص اسلامی ممالک اور خاص طور پر پاکستانی فوج پر سوال اُٹھا رہا ہے۔ بہت سارے لوگوں کا ماننا ہے کہ پاکستانی فوج کو اسرائیل

پر حملہ کر دینا چاہیے۔ واحد ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اسرائیل سے جنگ کریں۔ یہ وہ دور نہیں کہ جنگ ہر مسئلہ کا حل ہو۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک لمبی منصوبہ بندی تھی، جس کا نتیجہ اب آ رہا ہے۔ اس کا ادراک علامہ اقبال اور سرسید احمد خان کو ہوچکا تھا۔ سرسید احمد خان نے اپنی پوری زندگی مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے کی کوشش اور علمی طور پر مغرب کا مقابلہ کرنے کی تلقین میں گزار دی۔ عملی طور پر بھی ان سے جو ہو سکا، انھوں نے کیا۔ علامہ اقبال کی شاعری کو اگر غور سے دیکھیں تو اُنھوں نے بھی اُمتِ مسلمہ کو جگانے کے لیے کی تھی۔ وہ شاعری تقریبا 100 سال پرانی ہے۔ اس وقت ان کو پتہ تھا کہ یہ سب ہو رہا ہے، اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا۔ اس کو مطلب کہ اس منصوبے کی ابتداء اس سے بہت پہلے ہو چکی تھی۔

 

تاریخ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسلامی ممالک کبھی بھی ایک نہیں ہو سکے۔ کیوں کہ ہمیشہ سے ان کی ترجیحات میں تضاد رہا۔ غیرمسلم ممالک کے آپس میں لاکھ اختلافات سہی، لیکن جب بات اسلام اور مسلمانوں کی ہوتی ہے تو وہ سب ایک ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ جب کہ ہم ہمیشہ مفادات، مفروضات، فرقہ واریت، رنگ، نسل، ذات پات اور عربی و عجمی میں بٹے نظر آتے ہیں۔  

معذرت کے ساتھ، ذرا اپنے اطراف پر نظر ڈالیں۔ مسلمان ممالک کتنی چیزوں کے لیے غیر مسلم ممالک کے محتاج ہیں اور غیر مسلم ممالک کتنی چیزوں کے لیے مسلم ممالک کے محتاج ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا۔ اس پر میرے اندازے کے مطابق 300 سالوں سے کام ہو رہا ہے۔ ہم جن توپوں اور بم بارود کی باتیں کر رہے ہیں، وہ بھی ہمیں غیر اسلامی ممالک مہیا کرتے ہیں۔ بچوں کے ڈائپر سے لے کر جنگی جہاز تک ہم غیر اسلامی ممالک سے لیتے ہیں۔ پنیر، مکھن، شہد، دودھ، پانی، غرص کھانے، پہننے، نہانے، تک کا سارا سامان غیر اسلامی ممالک سے آتا ہے۔ جنگی جہازوں، مشینری، کمپیوٹرز، گاڑیوں اور گھڑیوں، کی بات ہی چھوڑ دیں۔ سوئی تک ہمیں ایک غیر اسلامی ملک دیتا ہے۔ اگر غیر اسلامی ممالک امداد کے طور پر کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپ ہمیں مفت میں نہیں دیتے تو شائد ہمارے ملک میں 2 سے 3 فی صد لوگ ہی کمپیوٹر استعمال کرنا جانتے۔ باقی ساری باتیں چھوڑیں، ہم تو تعلیم بھی دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کیا پڑھانا ہے اور کیا نہیں۔ کس زبان میں پڑھانا ہے اور کس زبان میں نہیں۔

کچھ ممالک تو جہاد کو سرے سے اسلام کا حصہ ہی نہیں سمجھتے۔ کیا مشرقِ وسطیٰ کے اسلامی ممالک، عرب ممالک، وسطی ایشیا کے اسلامی ممالک، افریقہ کے اسلامی ممالک اور ایشیا کے غریب اسلامی ممالک اس جنگ میں اسرائیل اور غیر اسلامی ممالک کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت رکھتے ہیں؟ بالکل بھی نہیں۔ یہ اپنے اپنے ملک کے اندرونی و بیرونی مسائل میں الجھے نظر آتے ہیں۔ یہ دور چھاپہ مار جنگ کا دور نہیں کہ چھپ چھپ کر گروہ کی صورت میں کسی بڑے ملک کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ یہ دور معاشی، سفارتی اور لمبی حکمت عملی کی جنگ کا دور ہے۔

اسلامی ممالک اب غیر اسلامی ممالک کے اتنے محتاج ہو چکے ہیں کہ چاہ کر بھی ان کے خلاف نہیں جا سکتے۔ صرف پیڑول اسلامی ممالک کا ہتھیار ہو سکتا تھا، اب مغربی ممالک اس سے بھی جان چھڑا رہے ہیں۔ اپنی گاڑیوں اور دوسری مشینریوں کو پیٹرول سے بجلی پر منتقل کر رہے ہیں۔ کچھ عرصے بعد وہ اس محتاجی سے بھی باہر نکل جائیں گے۔ کیوں سعودی شہزادہ امریکا کے ہاتھوں ذلیل ہو کر بھی کچھ نہیں کہہ رہا۔ کیوں وہ جان بھوجھ کر غیر اسلامی قوانین اپنے ملک میں رائج کر رہا ہے۔ کیوں کہ سعودی عرب معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اگر وہ صرف تیل پر انحصار کرتے ہیں تو اگلے 20 سے 25 سالوں میں سعودی عرب کی معیشت تباہ ہونے والی ہے۔ اس سے متعلق ایک چھوٹا سا بہت بڑا واقعہ ہوا ہے، جس کو صرف ایک خبر کے طور پر لیا گیا ہے۔ لیکن اگر کسی کو اس بات کو نوٹ کرنا ہے تو کر لیں۔ مدینہ منورہ سے داخلی راستے پر سے "صرف مسلم" کا بورڈ ہٹا کر "حرم ایریا" کا بورڈ لگا دیا گیا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔ لیکن اس کے پیچھے ایک بہت بڑا منصوبہ کارفرما ہے۔ کچھ عرصہ بعد آپ دیکھیں گے کہ غیر مسلم حکمران خانہِ کعبہ اور مدینہ کا دورہ کریں گے۔ شائد اس وقت آپ کو یہ بات بہت بُری لگے لیکن سعودیہ حکمران اب اپنی معیشت کو بچانے کے لیے بہت کچھ کریں گے۔ ہم پہلے کی طرح احتجاج کریں گے، اپنے ملک میں توڑ پھوڑ کریں گے۔ او آئی سی کا اجلاس بلائیں گے، وہاں سعودیہ سے درخواست کریں گے اور پھر اس کو سعودیہ کا اندرونی معاملہ کہہ کر اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ جائیں گے۔

زیادہ تر اسلامی ممالک اپنے ڈیفینس کے لیے مغرب ممالک کے محتاج ہیں۔ عرب ممالک کا پورا حفاظتی نظام امریکہ اور نیٹو چلا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تقاریر میں بارہا اس بات کا اظہار کر چکا ہے کہ عرب ممالک کے پاس صرف پیسہ ہے اور وہ پیسہ امریکہ کو دے کر امریکہ سے عرب ممالک کے حفاظت کی درخواست کرتے ہیں۔ اگر اس صورت میں کوئی ملک اسرائیل کے خلاف جنگ شروع کرتا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ عرب ممالک اخلاقی، معاشی اور فوجی طور پر اس ملک کی مدد کریں گے۔

کہنے کو دنیا میں 57 اسلامی ممالک موجود ہیں لیکن جس وقت بھی حضرت محمد صلی آللّٰہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کا مسئلہ ہو، کسی اسلامی ملک پر کسی غیر اسلامی ملک کے حملے کا مسئلہ ہو، بہت کم اسلامی ممالک میں اس سلسلے میں ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک سے زیادہ احتجاج غیر اسلامی ممالک میں دیکھنے میں آئے۔ برما میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر بھی کسی اسلامی ملک نے سنجیدہ قدم اُٹھانے سے گریز کیا۔ جب برما جیسے ملک کے خلاف کوئی عملی اقدامات نہیں کیے جا سکتے تو اسرائیل، امریکہ اور دوسرے غیرمسلم ملک کے خلاف کوئی سنجیدہ کاروائی کرنا ایک خواب جیسا لگتا ہے۔

تاریخ پر نظر ڈالیں، مسلمانوں کو نقصان غیرمسلموں سے زیادہ مسلمانوں نے پہنچایا ہے۔ ماضی میں بھی نظر ڈالیں تو آپ کو بہت کم مسلمان ممالک مل کر غیرمسلم ممالک کا سامنا اور جنگ کرتے نظر آئیں گے، جب کہ غیر مسلم ہر موقع پر مسلمانوں کے خلاف متحد نظر آتے ہیں۔ بلکہ بہت سارے مسلمان ممالک تو غیرمسلموں کا ساتھ دیتے نظر آئیں گے۔ ہم نے کبھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ ہمیشہ تاریخ کا گلے کا ہار بنا کر رکھا کہ ہم ماضی میں اتنے عظیم تھے اور ہم نے یہ یہ کارنامے سرانجام دیے۔ حال اور مستقبل کے بارے میں کبھی نہیں سوچا اور اگر سوچا تو بھی غیرمسلموں کے دماغ سے۔

 

اندرونی خانہ جنگی کا شکار ممالک کو دیکھا جائے تو ان میں بڑی تعداد مسلمان ممالک کی ہے۔ شام، لبنان، افغانستان، عراق وہ ممالک ہیں جو کہ اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہیں اور یہ سب کچھ چند دنوں یا سالوں میں نہیں ہوا بلکہ کئی دہائیوں تک ان ممالک کے خلاف سازشیں کی گئی ہیں اور یہ ممالک ان سازشوں کا شکار ہوئے۔

اگر اخراجات اور آمدنی کی بات کی جائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق 2019 میں تمام اسلامی ممالک کا مجموعی دفاعی بجٹ 2 کھرب 38 ارب ڈالرز تھا جب کہ صرف امریکہ کا دفاعی بجٹ 7 کھرب 40 ارب ڈالرز سے زائد تھا۔ جو کہ اس کے جی ڈی پی کا 4 فی صد تھا۔ دفاعی اخراجات کے حوالے سے بات کریں تو ابتدائی 15 ممالک میں صرف ایک اسلامی ملک نظر آتا ہے اور وہ ہے سعودی عرب جس کا 2019 میں دفاعی بجٹ 48 ارب ڈالرز کا تھا۔ کسی بھی اسلامی ملک کا دفاعی بجٹ 50 ارب ڈآلرز سے زائد نہیں رہا جب کہ انڈیا کا دفاعی بجٹ 73 ارب ڈالرز سے ریادہ تھا۔

 

اپنے اردگرد نظر دوڑائیے۔ سائنس سے متعلق کتنی نئی کتابیں فارسی، عربی، اور دوسری اسلامی ممالک کی زبانوں میں ملیں گی۔ اس کے مقابلے میں فرنچ، چائینیز، جاپانی، انگریزی اور روسی زبانوں میں سائنس اور جدید موضوعات پر کتابوں کی تعداد دیکھ لیں۔ اسلامی دنیا اور غیر اسلامی دینا میں موجود تعلیمی ادارے، لائبریریاں، سائنسی تجرباہ گاہیں، پڑھنے اور لکھنے کا شوق اور علم دوستی کا موازنہ کر کے دیکھ لیں۔ علاج معالجے کی سہولیات اور تجربات پر تحقیق کرلیں۔ صفائی اور حفضانِ صحت کے بارے میں تحقیق کرلیں۔ عوامی سہولت اور انصاف کی فراہمی پر بات کر لیں۔ ایمانداری اور انسانی حقوق کو موازنہ کرلیں۔ ہر جگہ غیراسلامی ممالک اسلامی ممالک سے بہت بہتر حالت میں نظر آئیں گے۔

ملک اور قوم جلسے جلوسوں اور اپنے ملک میں توڑ پھوڑ کرنے سے ملک ترقی نہیں کرتا۔ ایک دوسرے پر اپنے نظریات ٹھوسنے اور دوسرے کو کم تر، نیچ اور چور ثابت کرنے سے ترقی نہیں ہوتی۔ ترقی کے لیے ایک طویل اور صبرآزما سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ جو امیر ممالک ہیں وہ عیاشیوں میں لگے ہیں، جو ترقی پزیر ہیں وہ مانگنے میں لگے ہوئے ہیں اور جو غریب ہیں، وہ خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسلامی ممالک کو ایسی خوبیوں سے نوازا ہے کہ وہ پوری دنیا پر حکمرانی کر سکتے ہیں، لیکن آپس کے اختلافات اور اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہونے کی وجہ سے نہایت برے حالات کا شکار ہیں۔  

ماضی میں جو خصوصیات اور اچھائیاں مسلمانوں کا خاصہ ہوا کرتی تھیں، آج غیرمسلموں میں رائج ہیں۔ ایمانداری، دیانداری، سچائی، مسلمانوں میں ناپید سی ہوتی جا رہی ہیں۔ بحیثیت قوم آج جو مسلمانوں کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے اس کے سب سے زیادہ ذمہ دار خود مسلمان ہی ہیں۔ کیوں کہ مسلمانوں کو کوئی دوسری قوم نقصان نہیں پہنچا سکتی اگر مسلمان متحد ہوں اور تمام اختلافات سے بالاتر ہو کر سب سے پہلے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سوچیں۔ لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ غیرمسلم ہم سب کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم ہی ایک دوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ عربی عجمی کو، عجمی عربی کو، شعیہ سنی کو، سنی شعیہ کو غرض ہر فرقہ خود کو مسلمان اور دوسرے تمام فرقوں کو غیر مسلم سمجھتا ہے۔ اور نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ اُن کو غیرمسلموں سے زیادہ خطرناک اور اسلام کا دشمن تصور کرتا ہے۔

جب تک اسلامی ممالک اپنی معیشت، تعلیم، ہنر اور ایمانداری کو بہتر نہیں کریں گے، آپسی اختلافات کو الگ رکھ کرصرف اسلام کے متعلق نہیں سوچیں گے، متحد نہیں ہوں گے، اپنے اقدار کو نہیں اپنائیں گے، اور اللہ پر ایمان اور یقین کا اپنے ایمان کا حصہ نہیں بنائیں گے، ہم ان غیرمسلم ممالک کے محتاج ہی رہیں گے۔

ہمیں جنگ ضرور کرنی چاہیے لیکن جنگ کرنے سے پہلے جنگ کے بعد ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے کی طاقت تو جمع کر لیں۔ کیوں کہ اگر ابھی جنگ لڑیں گے توجنگ کے لیے ہتھیار، تیکنیک، اور ہتھیار خریدنے کے لیے رقم کے لیے اور جنگ کے بعد اپنی حالت کو درست کرنے کے لیے امداد اور قرضہ مانگنے بھی تو اٗنھی کے پاس جانا ہوگا۔