اسلام اور مسلمان
محمد ندیم جمیل – ایم
فل – شبعہِ ذرائع ابلاغ، جامعہ کراچی 22 مئی 2021
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مبینہ جنگ بندی
ہوگئی ہے جس کو پوری عالمِ اسلام بلخصوص پاکستان بہت بڑی کامیابی بتا رہے ہیں۔
ساتھ ہی پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کامیابی
ابھی بہت دور ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی خبر آئی ہے کہ اسرائیل نے جنگ بندی کے صرف 12
گھنٹوں کے بعد مسجدِ اقصٰی میں جمعہ کے نماز کی ادائیگی کے بعد خوشی مناتے فلسطینی
مسلمانوں پر آنسو گیس کے گولے داغے ہیں اور ان کو منتشر کرنے کے لیے ربر کی گولیاں
استعمال کی ہیں۔ کچھ فلسطینی زخمی بھی ہوئے ہیں اور کچھ کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔
اس پر کسی بھی جانب سے یعنی حماس، اسلامی ممالک یا پاکستان کے وزارتِ خارجہ کی
جانب سے کوئی آفیشل بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ لگتا ہے کہ ابھی تک جنگ بندی کی
خوشیاں منانے اور کریڈٹ لینے سے فرصت نہیں ملی ہے۔
اسرائیل اور فلسطین دونوں اس جنگ بندی کو اپنی
فتح قرار دے رہے ہیں۔ حماس نے بھی اس کو اپنی فتح قراد دی ہے۔ جنگیں قوموں کے
نظریات اور مستقبل تبدیل کر دیتی ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں بھی یہی ہوا۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد بڑی طاقتوں نے محسوس کیا کہ جنگ مسائل کا حل نہیں بلکہ
مسائل پیدا کرنے کا طریقہ ہے۔ اسی لیے دوسری جنگِ عظیم کے بعد کسی بھی بڑے ملک نے
اپنی سرزمین پر جنگ نہیں لڑی۔ جن ممالک میں جنگیں لڑی گئیں، جیسے کہ ایران، عراق،
شام، لبنان، افغانستان، فلسطین اور بیروت وغیرہ، تو وہاں کا حشر دیکھا جا سکتا ہے۔
ہر ملک اپنی سرزمین پر جنگ لڑنے سے خوف زدہ ہے اور اس جنگ میں جنگ بندی کی بڑی وجہ
یہ ہے کہ یہ جنگ اسرائیل کی سرزمین تک پہنچ گئی تھی۔ اگر یہ جنگ صرف فلسطین یا غزہ
میں لڑی جا رہی ہوتی تو اسرائیل اس جنگ بندی پر کبھی راضی نہیں ہوتا۔
اصل چیز جنگ کا شروع ہونا، جنگ بندی کا ہونا یا
جنگ کا نہ ہونا نہیں ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ کیا یہ جنگ دوبارہ ہو گی یا نہیں۔ بہت
سارے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جنگ بندی اسی طرح ہے جیسے کہ کسی باکسنگ کے مقابلے
میں دو راؤنڈ کے دوران تھوڑا سا وقفہ ہوا ہے۔ فلسطین کا تو پتہ نہیں، لیکن اسرائیل
ضرور اپنی کمیوں اور کوتاہیوں پر نظرِ ثانی کرے گا۔ اس کو اپنی بڑی بڑی کوتاہیوں
کا احساس ہوگیا ہے۔ جیسے کہ اس کا اینٹی میزائل سسٹم آئرن ڈوم جو کہ دنیا کا سب سے
بہترین اینٹی مسائل ڈیفنس سسٹم کہلاتا ہے، ایک مخصوص تعداد تک ہی مزائیلوں کو روک
سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی اسرائیل پر 300 سے 500 میزائل فائیر کرے اور اس
کے ساتھ ہی ایٹمی میزائیل فائر کر دے تو یہ نظام مفلوج ہو جائے گا اور اسرائیل
تباہ ہو سکتا ہے۔ اتنی تعداد میں میزائیل کا رکھنا اور فائر کرنا جب حماس جیسی
تنظیم کے لیے ممکن ہے تو جو ممالک اسرائیل کے آس پاس ہیں، ان کے لیے کتنا آسان
ہوگا۔ دوسری بات اسرائیل نے اس سسٹم پر انتا بھروسہ کیا ہوا تھا کہ مزید کسی تیاری
کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ جس کی وجہ سے آئرن ڈوم سے بچنے والے میزائیلوں نے
اسرائیل کو نقصان پہنچایا۔ ساتھ ہی یہ بات بھی دیکھنی ہوگی کہ اسرائیل اس جنگ میں
سفارتی طور پر ناکام ہو گیا۔ اس کے حمایتی ممالک کی تعداد یقینی طور پر بہت زیادہ
رہی۔ 25 ممالک اس کے ساتھ کھڑے نظر آئے جن میں اسڑیلیا، برطانیہ، امریکہ، جرمنی،
فرانس، انڈیا اور دوسرے ممالک شامل تھے، لیکن یہ اس لیے ساتھ نہیں تھے کہ یہ جنگ
اسرائیل اور فلسطین کے ساتھ تھی، بلکہ اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ یہ جنگ
مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان تھی اور مسلمانوں سے عناد رکھنے والے ممالک اسرائیل
کی پشت پر تھے دوسری وجہ یہ تھی کہ کچھ ممالک اس وجہ سے ساتھ دے رہے تھے کہ یہ
فلسطین اور اسرائیل کی جنگ نہیں تھی بلکہ بقول اسرائیل کے اس پر ایک دہشت گرد
تنظیم حماس نے حملہ کیا ہے اور وہ اس کا جواب دے رہا ہے۔ فلسطین تو جواب دینے کی
صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ کیوں کہ فلسطین کے پاس کوئی فوج ہی نہیں۔ حالانکہ یہی بات
فلسطین کے حق میں گئی اور اسرائیل کے وزارتِ خارجہ اپنی پوری کوشش کے باوجود یہ
ثابت نہیں کر پائی کہ فلسطین حماس کو پناہ دے رہا ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل کا دفعائی
نظام بہت مہنگا ہے اور اس کا بہت زیادہ استعمال معاشی طور پر کسی بھی ملک کے لیے
ناقابلِ برداشت ہو سکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آئرن ڈوم کا ایک میزائیل
ایک لاکھ امریکن ڈالرز کے قریب قریب پڑتا ہے۔ اور اگر ایک وقت میں تین سو میزائیل
فائر کرنے پڑے تو اندازہ لگا لیں کہ یہ کتنا مہنگا سودا ہو سکتا ہے۔ جب کہ جو
میزائیل حماس داغ رہے تھے وہ نہایت سستے اور روائیتی میزائیل تھے۔
اس بات کو بھی مدِ نظر رکھنی چاہیے کہ اگر اس
جنگ میں حماس کے ساتھ حزب اللہ بھی شامل ہو جاتی تو جنگ کا نقشہ کیا ہو سکتا تھا،
کیوں کہ حزب اللہ بہرحال حماس سے زیادہ فعال اور طاقتور تنظیم ہے۔
یہ ایک ٹیسٹ رن یا آزمائیشی جنگ تھی، جس میں
اسرائیل کو اپنی کوتاہیاں اور کمیاں نظر آئیں اور لازمی طور پر آنے والے دنوں میں
یہ ان کمیوں کو پوری کرنے کی کوشش کرے گا۔ جب کہ اسلامی ممالک اپنے اپنے فرائض
پورے کرکے اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ جائیں گے۔
اسرائیل کا 2020 کا دفاعی بجٹ 21 بلین ڈالرز سے
زیادہ رہا ہے۔ اور وہ ایک ایسے ملک سے جنگ لڑ رہا تھا، جس کی اپنی کوئی فوج ہی
نہیں اور اس ملک کے پاس اپنی دفاع کرنے کی صلاحیت ہی نہیں اور اسرائیل کا جواب ایک
ایسی تنظیم دے رہی تھی جس کو عالمی طور پر ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر جانا جاتا
ہے۔ اس صورتِ حال میں واقعی اسرائیل کے لیے اور اسرائیل کی دفاعی ماہرین کے لیے سوچنے
کا مقام اور لحمہِ فکریہ ہے۔
اگر اپنے دفاع پر خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست
پر نظر دوڑائی جائے تو ابتدائی 15 ممالک میں صرف سعودی عرب ہی نظر آتا ہے۔ اس کے
علاوہ کوئی اسلامی ملک موجود نہیں ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ 72 ارب ڈالرز سے زیادہ
ہے جب کہ پاکستان نے گذشتہ سال دفاع کے لیے 1.7 ارب ڈالرز رکھے تھے۔
ایسا کیوں ہے کہ زیادہ تر اسلامی ممالک غریب ہیں
اور جو امیر ممالک ہیں، وہ بھی قدرتی وسائل سے یعنی کہ تیل یا گیس سے کما رہے ہیں۔
کسی صنعتی یا جدید ترقی میں ان کا نام شامل نہیں۔ یہاں پر کچھ لوگوں کو اعتراض
ہوگا کہ دبئی اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک میں لاکھوں لوگ جاتے ہیں جن میں سے
بیشتر کا تعلق غیر اسلامی ممالک سے ہوتا ہے تو معذرت کے ساتھ بتادوں کہ وہ یہ لوگ
وہاں عیاشی کے نظریہ کے ساتھ جاتے ہیں، جیسے کہ وہ اپنے ممالک میں پب یا جوا
کھیلنے جاتے ہیں اور اگر وہ وہاں شاپنگ کرتے ہیں تو ان میں زیادہ تر ان ہی غیرمسلم
ممالک کی تیار کردہ اشیاء ہوتی ہیں یا بین القوامی کمپنیوں کا سامان ہوتا ہے جس کا
آخرکار فائدہ ان غیرمسلم ممالک کو ہی ہوتا ہے۔
غیراسلامی ممالک کی ترقی کی وجوہات میں سے ایک
وجہ ان ممالک میں معاشی منصوبہ بندی کا تسلسل ہے۔ نئی حکومت پرانی حکومت کے بنائے
گئے منصوبوں کو نظرِآتش نہیں کرتی۔ وہ کبھی بھی 5 یا 10 سال کے لیے منصوبہ بندی
نہیں کرتے، وہ 50 سالوں کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اس کو تسلسل کے ساتھ
چلاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہاں زیادہ تر لوگ سچ بولتے ہیں۔ کم سے کم خود سے
تو سچ بولتے ہیں۔ کیوں کہ جب تک سچ تسلیم نہیں کیا جائے گا، اپنی کمزوریوں اور
کمیوں پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ ان ممالک کا ٹیکس کا نظام بہت بہتر ہے۔ جو پیسہ
عوام سے لیا جاتا ہے، عوام پر ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ کرپشن ہے، لیکن کم ہے۔ وہاں اگر
کوئی قانون ہے تو اس قانون کی پاسداری بھی ہوتی ہے۔ وہ خود بھی قانون پر عمل کرتے
ہیں اور اپنے بچوں کو بھی قانون پر عملدرامد کرواتے ہیں۔ وہاں دو قانون نہیں، سب
کے لیے ایک ہی قانون ہے۔ برطانیہ میں دو قانون لاگو ہیں، ایک عام عوام کے لیے اور
ایک شاہی خاندان کے لیے ۔ لیکن یہ اعلانیہ اور مروجہ ہے۔ چھپا ہوا نہیں۔ کچھ عرضہ
پہلے سعودی عرب میں بہت سارے شہزادوں کو مالی بےضابتگی کی وجہ سے گرفتار کیا گیا
اور پھر رقم لے کر ان کو رہا کیا گیا۔ اگر ان قوانین پر نظر ڈالیں جو کہ ان ممالک
میں رائج ہیں تو ان کے ایجاد کرنے والے اور بنانے والے مسلمان ہی نظر آئیں گے۔ اگر
انصاف اور قانون کی بات کی جائے تو حضورﷺ کے دور کا وہ مشہور واقعہ موجود ہے کہ
ایک خاتون جس کا نام فاطمہ تھا، کے ہاتھ کو چوری کے الزام میں کاٹا جا رہا تھا۔
وہاں ایک شخص نے اس کی سفارش کرنے کی کوشش کی تو حضورﷺ کے فرمان کو مفہوم کچھ اس
طرح ہے کہ اگر اس کی جگہ فاطمہ بنتِ محمدﷺ بھی ہوتی تو اس کو بھی یہی سزا دی جاتی۔
ایسے بے شمار واقعات ملیں گے۔ لیکن موجودہ دور میں اسلامی ممالک میں انصاف کا وہ
معیار موجود نہیں۔ مغربی ممالک میں بےروزگاری اور اولڈ ایج کے نام پر معاوضہ ملتا
ہے، جو کہ اتنا ہوتا ہے کہ اس شخص کے لیے کافی ہوتا ہے۔ لیکن کسی اسلامی ملک میں
یہ رائج نہیں ہے۔ علم کی محبت جو کبھی مسلمانوں کی میراث تھی، اب ناپید ہے۔ اگر
ٹاپ کے 200 جامعات پر نظر دوڑائی جائے تو 122ویں نمبر پر سعودی عرب کی جامعہ، کنگ
سعود یونیورسٹی اور 150ویں نمبر پر ترکی کی ایک جامعہ، انادولو یونیورسٹی نظر آتی
ہے۔ باقی تمام جامعات غیرمسلم ممالک میں موجود ہیں۔
مسلمان معاشی، معاشرتی، سماجی، تعلیمی اور عسکری
ہر میدان میں غیرمسلم ممالک سے پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب کچھ بننے کے
لیے تیار ہیں سوائے مسلمان بننے کے۔ اس بات کو نظر میں رکھیں کہ غیرمسلموں کو
مسلمانوں سے ڈر نہیں لگتا، اسلام سے لگتا ہے۔ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک
مسلمانوں میں اسلام موجود تھا، وہ ایک مسلمان پہلے تھا، باقی سب بعد میں تھا تو
غالب تھا۔ اگر مسلمانوں سے اسلام کو نکال دیا جائے تو باقی کچھ نہیں رہتا۔ اس بات
کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مغربی ممالک کو عرب ممالک سے کوئی خطرہ نہیں،
کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ان کے مخالف نہیں کھڑے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ
وہ مسلمان نہیں، بے شک وہ مسلمان ہیں، لیکن ان میں اسلام مکمل طور پر موجود نہیں۔
اسی طرح غیر عرب ممالک کی بات کی جائے تو ان ممالک میں غیرمسلموں کے مقابلے میں
مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کے لیے زیادہ نفرت پائی جاتی ہے۔ اگر آج ایران اور سعوی
عرب یا ترکی اور سعوی عرب ایک دوسرے کے مخالف ہیں تو اس کی وجہ فرقہ پرستی ہے۔ عرب
کو ترکی اور ایران کے مقابلے میں امریکہ پر زیادہ اعتبار ہے۔ اسی طرح شام، لبنان،
عراق، متحدہ عرب امارات، کویت اور دوسرے اسلامی ممالک ہیں۔ اس بات کا اندازہ علامہ
اقبال نے آج سے سو سال پہلے ہی لگا لیا تھا۔ ان کی شاعری پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا
کہ وہ مسلمانوں کے اس طرزِ عمل سے کس قدر مایوس اور دلگرفتہ تھے۔
مسلمان آج جس مقام پر کھڑے ہیں، اس کے سب سے بڑے
ذمہ دار وہ خود ہیں۔ مسلمانوں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا، جب تک مسلمان خود نہ
چاہیں۔ پہلے کے ایک سلطان صلاح الدین کا سامنا پورا یورپ مل کر نہیں کر سکا تھا
اور آج 57 مسلم ممالک مل کر ایک اسرائیل سے اپنی بات نہیں منوا سکتے، جب تک
غیرمسلم ممالک ساتھ نہ دیں۔ یہ ایک المیہ ہے اور اس کے ذمہ دار خود مسلمان ہیں۔
بحیثیت مسلمان ہم غیرمسلم سے کم ڈرتے ہیں، دوسرے مسلمان سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ اسی
وجہ سے جب ہمیں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو ہم غیرمسلم ممالک کے در پر جا کر کھڑے
ہوتے ہیں۔ جب تک مسلمان اپنے آپ میں اسلام کو مکمل داخل نہیں کریں گے، فتحیاب نہیں
ہوسکتے۔ مسلم ممالک کو اپنے آپ کو وہاں کھڑا کرنا ہوگا کہ جہاں ان کی بات عزت و
احترام کے ساتھ سُنی جائے، بجائے اس کے کہ مسلمان ملکوں کو اپنی حفاظت کے لیے
غیرمسلم ممالک سے مدد لینی پڑے۔ پاکستان کے صدر عارف علوی نے انٹرویو میں بہت صحیح
بات کہی کہ اُمتِ مسلمہ اس وقت بہت کمزور ہے اسی وجہ سے دوسروں کی باتیں سُننی
پڑتی ہیں۔ مسلم ممالک کو اپنی بقاء کے لیے اپنے آپ کو معاشی، معاشرتی، عسکری اور
اخلاقی طور پر مضبوط کرنا ہوگا۔ اور اس کا واحد راستہ اسلام پر مکمل چلنا اور اللہ
پر بھروسہ کرنا ہے۔ مسلمانوں کو وہ ساری خصوصیات اپنے اندر لانی ہوں گی۔ جو اسلام
بتاتا ہے۔ ایک چھوٹی سی بات ہے کہ کیا سارے اسلامی ممالک میں اتنی ہمت ہے کہ وہ
ملک کر کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے غیراسلامی ملک کے خلاف دین کے نام پر جنگ چھیڑ
سکیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں، کیوں کہ ایسا ہوتے ہی تمام غیرمسلم ممالک اپنے آپسی
اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ایک ہوجائیں گے۔ وہ کھل کر اس ملک کا ساتھ دیں گے۔ صرف
اخلاقی طور پر نہیں، بلکہ معاشی اور عسکری طور پر بھی۔ لیکن یہ اتحاد مسلمانوں میں
نہیں۔ جس دن یہ اتحاد پیدا ہو گیا، غیرمسلم ممالک میں سے کسی کی ہمت ہی نہیں ہو گی
کہ وہ کسی اسلامی ملک کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھ سکے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں