پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال
دستورِ پاکستان کے آرٹیکلز 62 اور 63 ایسی تلوار
ہیں جو کہ ہر کرپٹ اور چور سیاست دان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ ہر کرپٹ سیاست دان
کی دلی خوائش ہے کہ اس میں تبدیلی لائے، مگر زبان سے کوئی نہیں کہتا۔ کیوں کہ کہنے
کا مطلب ہے کہ وہ اس سے خوفزدہ ہے۔ اب سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس
آرٹیکل کے خلاف محاذ کھول دیا ہے اور چاہتے ہیں کہ آئین سے اس کو نکال دیا جائے یا
کم سے کم تبدیل کر دیا جائے تا کہ وہ بھی اسی طرح بے اثر ہوجائے جس طرح پاکستان
میں صدر کا عہدہ ہے۔ کسی کو نہیں پتا کہ آخر صدر کا کام کیا ہے؟ خود ہمارے صدر
مملکت ممنون حسین کو بھی نہیں پتہ۔ بہرحال اب وہ تمام کرپٹ سیاسبت دانوں کو جمع
کرکے ان آرٹیکلز کے خلاف متحدہ محاذ قائم کریں گے۔ اس سلسلے میں وہ سب سے پہلے
اپنے پرانے دوست اور زیرک سیاست دان آصف علی ذرداری سے مدد طلب کریں گے۔ کیوں کہ
آصف علی ذرداری اس آرٹیکل کا اگلا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان پر بھی کرپشن کے بہت سے
کیسز چل رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے
بیشتر سیاست دانوں کی دلی خواہش ہوگی کہ اس آرٹیکل میں ترامیم کی جائے اور اس کو
بے اثر اور بےکار بنایا جائے۔ اس وقت نہ صرف مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی بلکہ
تحریکِ انصاف اور دوسری سیاسی جماعتوں کے سیاست دان بھی اس آرٹیکل کے شکارہوتے نظر
آرہے ہیں جن میں پاکستان کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کے لوگ شامل ہیں۔ اگر دیکھا
جائے تو پاک سر زمین پارٹی میں شامل تمام رہنماؤں نے باقائدہ ٹیلیویژن پر اپنے
خطابات میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ الطاف حسین کے تمام جرائم سے با خبر تھے
اور خاموش تھے یا بارٹی چھوڑ کا چلے گئے تھے، لیکن کبھی بھی اس بارے میں عوام،
سیکیورٹی اداروں یا عدالت کو معلومات فراہم نہیں کیں اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی
سے کوئی بات کی۔ یہ بھی غداری اور جھوٹ بولنے کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح متحدہ
قومی موومنٹ (پاکستان) کے موجودہ ارکانِ اسمبلی اور رہنما بھی اسی جرم کے مرتکب
ہوئے ہیں۔ اسی طرح قرضوں کی معافی کی وجہ سے تحریک ِ انصاف کے بڑے رہنما بھی ان
آرٹیکلز کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ سب کی یہی کوشش ہوگی کہ خفیہ طور پر نواز شریف کا
ہاتھ مضبوط کریں اور 62 اور 63 کو دستور سے خارج کریں۔ نواز شریف کا کردار سامنے
ہوگا اور درپردہ ان کو آصف علی ذرداری اور دوسرے رہنماؤں کی معاونت حاصل ہوگی۔
کیوں کہ آصف علی ذرداری کا ایک خواب ہے کہ وہ صدر ہوں اور بلاول بھٹو ذرداری وزیرِ
اعظم ہوں۔ اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے ان کو ایک تو نواز شریف کی حمایت چاہیے
اور دوسرے ان آرٹیکلز کا دستور سے اخراج یا ترامیم۔ ان کے بغیر ان کا یہ خواب
شرمندہِ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
نواز شریف کو کسی پر بھی بھروسہ نہیں، یہاں تک
کہ اپنے بھائی شہباز شریف اور ان کے بچوں پر بھی نہیں۔ پارٹی میں کوئی ان کے لیے
قابلِ اعتبار نہیں۔ ورنہ وہ اپنے آبائی حلقے سے کسی کو بھی کھڑا کرسکتے تھے۔ وہ
نہیں چاہیں گے کہ ان کا کردار محدود ہوکر صرف ایک قائد کا رہ جائے جو کہ عملی طور
پر کچھ نہیں کرسکتا۔ نواز شریف اس وقت بنیادی طور پر سیاست سے فارغ ہوچکے ہیں۔
قانون کے مطابق پارٹی میں قانونی طور پر ان کا کوئی کردار اور حصّہ نہیں رہا۔
قانونی طور پراب وہ پارٹی سے سربراہ اور صدر کا عہدہ بھی نہیں رکھ سکتے۔ بلکہ اب
تو شائد پارٹی کا نام بھی تبدیل کرنا پڑسکتا ہے۔ قانونی طور پراب وہ الیکشن کے
دوران سیاسی جلسوں میں تقاریر بھی نہیں کرسکتے اور نہ ہی میڈیا کے ذریعے کسی
امیدوار یا سیاسی جماعت کی حمایت میں تقریر کر سکتے ہیں۔ الیکشن کے دوران ان کا
نام اور تصویر بھی کی سیاسی جماعت یا کسی حلقے کے امیدوار کے پوسٹرز، بینرزاور
پمفلٹز پرنہیں لگائی جاسکتی ہے۔ ان سب باتوں کا ادراک نواز شریف کو بہت اچھی طرح
ہے اور اسی وجہ سے وہ سیاست میں واپس آنا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس واپس آنے کا صرف
ایک ہی راستہ ہے کہ دستور میں تبدیلی لاتے ہوئے آرٹیکلز 62 اور 63 کو تبدیل یا ختم
کیا جائے۔
اس وقت اگر پاکستانی فوج حالتِ جنگ میں نہ ہوتی
اور بھارت، افغانستان اور پاکستان کے اندرونی علاقوں میں محاذوں پر ڈٹی نہیں ہوتی
اور آئین میں ترامیم نہیں ہوتیں تو اب تک فوج ملک پر قا بض ہوچکی ہوتی۔
ملک کی معاشی صورتِ حال بھی نہایت خراب ہے اور
ذرِمبادلہ کے زخائر خطرناک حد تک کم اور تجارتی خسارہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف چین سے ہی بیرونی سرمایہ کاری آرہی
ہے۔ غیرملکی سرمایہ کار پانامہ لیگس اوراس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کی وجہ سے بے یقینی کی
کیفیت میں ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ معاشی طور پر
پاکستان کو مستحکم ہونے کے لیے دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا اوراب آئی ایم
ایف قرض دیتے ہوئے نہایت سخت شرائط رکھے گا یعنی مہنگائی کا ایک بہت بڑا طوفان آئے
گا۔
پاکستان کی سفارتی پالیسیاں بھی اتنی بہتر نہیں
رہیں کہ اپنے دوست ممالک کی تعداد میں اضافہ اور دشمن ممالک میں کمی کر سکیں۔
وزیرِ خارجہ کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی سفارتی طور پر پاکستان کا بہت نقصان ہوا ہے
جس کا ازالہ ناممکن ہے۔ پچھلے سالوں میں سفارتی معاملات میں پاکستان نے
بیشترمقامات پر بھارت سے شکست کھائی ہے اور اس کی ذمہ دار پاکستان کی موجودہ اور
پچھلی حکومتیں ہیں۔ پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی طور پر دشمنوں سے گِھرا ہوا
ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری صفوں میں اتحاد رہے اور پاکستان کی عوام ان کرپٹ،
چور، مطلب پرست، ملک دشمن، مفاد پرست، غدار اور بے ایمان سیاست دانوں کی چکنی چپٹی
باتوں میں نہ آئیں کیوں کہ ان چوروں اور مطلب پرستوں کو صرف اپنے مفادات سے مطلب
ہے، پاکستان اور پاکستان کے عوام سے نہیں۔ پاکستان اور پاکستان کے عوام ان کے صرف
پیسہ کمانے کی فیکٹریاں ہیں۔ جس کا ثبوت ابھی موجودہ وزیرِ اعظم نے دیا ہے کہ تمام
قومی اسمبلی کے ارکان، وزراء اور مشیران کی تنخواہوں میں اضافہ ہے، جس کا اعلان
کردیاگیاہے۔ اس کی مخالفت کسی نے نہیں کی، کیوں کہ اس میں ان کا اپنا مفاد وابستہ
ہے۔
محمد ندیم جمیل
شعبہِ ابلاغ عامہ، جامعہِ کراچی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں