جمعہ، 28 جولائی، 2017

منگو کوچوان

منگو کوچوان
انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی کی بارویں کی اردو کی کتاب میں ایک افسانہ ہے جس کا نام ہے نیا قانون ہے۔ یہ افسانہ سعادت حسن منٹو کا تحریر کردہ ہے۔ یہ افسانہ قیامِ پاکستان سے پہلے کے دور پر تحریر کیا گیا ہے اور ایک تانگہ کے کوچوان منگو کے گرد گھومتا ہے۔ اس افسانے میں منگو ایک ہوشیار تانگہ کوچوان ہوتا ہے جو کہ انگریزوں سے نفرت کرتا ہے مگر بے بس ہوتا ہے کیوں کہ ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی اور وہ ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا تھا۔ وہ اپنی سواریوں کی گفتگو کو بہت غور سے سنتا تھا اور ان کو اپنے الفاظ میں اپنے ساتھیوں کو سنا کر اپنا رعب قائم کرتا تھا۔ جب انڈین ایکٹ نافذ ہونے والا تھا تو اپنی سواریوں کی گفتگو میں اس ایکٹ کے بارے میں سن کر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ایک ایسا قانون آنے والا ہے جس سے انگریزوں کی طاقت اور مرتبے میں کمی آجائے گی۔ جس دن یہ قانون نافذ ہوتا ہے تو اپنے آپ کو انگریزوں کے برابر سمجھنا شروع ہوجاتا ہے اور ایک انگریز کی پٹائی کر دیتا ہے۔ جب پولیس اس کو پکڑ کر لے کر جارہی ہوتی ہے تو وہ چلا چلا کر نئے قانون کی دہائی دے رہا ہوتا ہے اور سب اس کو پاگل سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کہانی کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ ہم پر لکھی گئی ہے کیوں کہ ہم بھی منگو کوچوان جیسی حرکتیں کرتے ہیں۔ ہر تبدیلی کے وقت سمجھتے ہیں کہ کوئی انقلاب آگیا ہے اور منہ کی کھاتے ہیں۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر حکومت کی تبدیلی پر اسی طرح میٹھائی بانٹ کر اور بھنگڑے ڈال کر سمجھتے ہیں کہ کوئی بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور پھر کچھ ہی دنوں بعد نئی تبدیلی کو گالیاں اور کوسنے دے کر پرانی کو اچھا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ زیادہ دور نہ جاتے ہوئے آپ کو یاد ہوگا کہ بھٹو کے حکومت کے خاتمے اور ضیاء الحق کے حکومت پر قبضے پر بھی اسی طرح میٹھائی بانٹی گئی تھی اور خوشیاں منائی گئیں تھیں۔ بھٹو کی پھانسی پر بھی یہی ہوا تھا۔ پھر کچھ دنوں بعد ہی جب ضیاء صاحب کے جوہر نظر آنے لگے تو سب کی آنکھیں کھل گئیں۔ یعنی منگو کوچوان ثابت ہوئے۔ پھر جب بے نظیر صاحبہ پاکستان تشریف لائیں تو یہی عمل دھرایا گیا۔ جب پیپلز پارٹی نے حکومت سنبھالی تو دو سالوں میں ہی کرپٹ ثابت ہوئی اور جب پیپلز پارٹی کی حکومت گئی اور نواز شریف صاحب نے پہلی بار حکومت سنبھالی تو پھر سب نے میٹھائی بانٹی اور سمجھے کہ اب پاکستان کا بیڑا پار ہوجائے گا۔ کچھ ہی دنوں میں احساس ہوگیا کہ ہوا کیا ہے اور پھر سے منگو کوچوان ثآبت ہوئے۔ پھر نواز شریف صاحب کی حکومت گئی اور پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور پھر پیپلز پارٹی کی حکومت گئی اور نواز شریف کی حکومت آئی تو یہی عمل دھرایا گیا اور ہم بار بار منگو کوچوان ثابت ہوئے۔ جب پرویز مشرف صاحب نے نواز شریف اور بے نظیر صاحبہ کو سائیڈ لگا کر ملک سے مکمل طور پر جمہوریت کا خاتمہ کردیا تو پاکستانی عوام بہت خوش ہوئے اور سب کو یقین ہوگیا کہ پرویز مشرف کی صورت میں ہمیں نجات دہندہ مل گیا اور اب ہم کو سُپر پاور بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس دور میں ہمارا حشر ایسا ہوگیا کہ ہم دہشت گرد ملک کی فہرست میں ٹاپ پر پہنچ گئے اورقوم بدحالی کی انتہا پر۔ قوم نے سب سے زیادہ امیدیں اس وقت لگائیں جب ججز بحالی کی تحریک چلی۔ میڈیا نے اس تحریک کو عوام کے سامنے اس طرح پیش کیا جیسے کہ افتخار محمد چودھری کے بحال ہوتے ہی نہ جانے کتنا بڑا انقلاب آجائے گا۔ چودھری صاحب نے بحال ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیا۔ سب سجمھ رہے تھے کہ انصاف ہورہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ہوکیا رہا تھا اور قوم کو ایک بار پھر منگو کوچوان بنایا گیا۔ جب مشرف صاحب نے وردی اُتاری اور پھر صدارت سے استفا دیا تو یہی ہوا، جس طرح آج نواز شریف صاحب کے نااہل ثابت ہونے پر ہو رہا ہے۔
اس جگہ پر میں تاریخ کے طالبِ علم کی حیثیت سے ایک بات واضع کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ نواز شریف صاحب کو سب سے زیادہ نقصان ان کی پارٹی کے ناآقبت اندیش ساتھیوں نے پہنچایا ہے اور ابھی بھی وہ یہی کر رہے ہیں۔ ہر پریس کانفرنس میں نواز شریف صاحب کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان پر کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور ان کے دورِ حکومت میں کسی بھی اسکیم میں کرپشن نہیں ہوئی۔ ان لوگوں اور خود نواز شریف صاحب کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس کیس میں قرض اتارو، ملک سنوارو، گرین لائین بس، اورنج لائین ٹرین، موٹرویز، دانش اسکولز، سستی روٹی اسکیم، لیپ ٹاپ اسکیم، نندی پاور پروجیکٹ اور اس جیسی دوسری اسکیموں پر تو تحقیقات نہیں ہوئیں اور نہ ہی جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ ان اسکیموں کوزیرِ بحث لائے۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ انجام کیا ہوتا۔ جس طرح مسلم لیگ (نواز) کے نوآزمودہ اور درباری ٹائپ کے سیاست دان عدلیہ اور دوسرے اداروں کو چیخ چیخ کر ان معاملات پر تحقیق کرنے کا چیلنج دے رہے ہیں، لگتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان پر بھی جے آئی ٹی بنے۔

تو بات ہورہی تھی منگو کوچوان کی۔ جب سے جے آئی ٹی بنی ہے، اس وقت سے اپوزیشن اور خاص طور پر کچھ مخصوص ٹی وی اینکرز اور سیاست دان یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کرپشن صرف شریف فیملی اور مسلم لیگ (نواز) کے سیاست دانوں نے کی ہے اور باقی سب دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ آرٹیکل 62 اور 63 کی چھلنی سے بہت کم سیاست دان، کاروباری حضرات، بیوروکریٹ، سرکاری اداروں کے عہدے داران اور دوسرے لوگ نکل سکتے ہیں۔ آج بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس آرٹیکل پر پیپلز پارٹی کو بھی تحفضات ہیں۔ کل یہ آرٹیکلز ان کی پارٹی کے ارکان خاص طور پر ان کے والد صاحب کو بھی نا اہل ثابت کرسکتی ہیں۔ اب نواز شریف صاحب نا اہل ثابت ہوچکے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ کہیں خدانخواستہ ایک بار پھر پاکستانی قوم منگو کوچوان نہ ثابت ہو۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔  

                                          محمد ندیم جمیل
شعبہ ِ ذرائع ابلاغ ۔ جامعہ کراچی         

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں