پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال
آخرکار مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے پاکستان کے تئیسویں وزیرِ اعظم کا حلف اُٹھا کر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی وزیرِ اعظم کے اپنے دور کو پورا نہ ہونے دینے کی روایت قائم رکھی۔ اس حلف برداری سے پہلے ہر لمحہ یہ سوچا جا رہا تھا کہ شائد ایسا ہونا ممکن نہ ہو۔ لیکن عدلیہ، بیوروکریسی، ملک کو چلانے والے حقیقی لوگ اور سیاست دانوں کی مکمل ہم آہنگی سے یہ کام پایہِ تکمیل تک پہنچا۔ دوسری جانب سابق وزیرِاعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نیازی نے حکومت کو نہ چلنے دینے کا عندیہ دیتے ہوئے اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستیں سنبھالنے کے بجائے اسمبلی سے استفے دے کر عوام میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان کی اپنی جماعت اور اتحادی جماعتوں میں سے کچھ نے ان کے اس فیصلے سے انحراف کرتے ہوئے استیفے نہ دینے کی بات کی ہے۔ لیکن پاکستان تحریکِ انصاف نے 125 استیفے جمع کروادئے، جن میں سے 123 استیفے منظور بھی کر لیے گئے ہیں۔ اگر عمران خان نے اپنی جماعت کے تمام قومی اسمبلی کے ممبران کو استیفے دینے پر مجبور کیا تو آئین کی اٹھارویں کے مطابق ان کی جماعت کے ممبران کے پاس استیفے دینے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہ جائے گا۔ تحریکِ انصاف کی جمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں میں سے ایک عوامی لیگ ہے جس کے پاس صرف ایک سیٹ ہے جو کہ شیخ رشید کی ہے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ قائداعظم ہے جو کہ استیفے نہیں دے گی۔ گریٹ ڈیموکریٹک الائینس نے بھی استیفے نہ دیتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فئ الحال صرف تحریکِ انصاف ہی استیفوں کی جانب جائے گی۔
پنجاب میں حمزہ شہباز کے وزیرِ اعلیٰ بن جانے کے
بعد تحریکِ انصاف پنجاب میں کیا حکمتِ عملی اپنائے گی، یہ دیکھنا باقی ہے۔ جس طرح
پنجاب کے وزیرِآعلیٰ کے انتخاب سے بائی کاٹ کرنے کا تو یہی مطلب نکلتا ہے کہ پنجاب
میں بھی تحریکِ انصاف استیفوں کی طرف جائے گی۔ اگر تحریکِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ
قائداعظم، اور اس کے دوسری حلیف جماعتیں پنجاب اسمبلی سے استیفیے دے دیتے ہیں تو
موجودہ وزیرِاعلیٰ حمزہ شہباز اکثریت کھو دیں گے، کیوں کہ اس صورت میں ان کو ووٹ
دینے والے تحریکِ انصاف کے ممبران یا تو نااہل قرار پائیں گے یا استیفے دیں گے۔
دونوں صورتوں میں ان کے ووٹ اسمبلی سے باہر ہوں گے اور حمزہ شہباز کے پاس 186 ووٹ
نہیں رہیں گے۔ پنجاب میں پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے
پاس سب سے بڑی اکثریت 183 سیٹیں موجود ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے 10
ممبران ہیں۔ اس طرح اس وقت ان کے پاس قانونی طور پر 193 نشستیں موجود ہیں۔ جب کہ
دوسری طرف مسلم لیگ نواز کے پاس دوسری بڑی اکثریت 165 نشستیں موجود ہیں۔ پاکستان
پیپلز پارٹی کے پاس 7 اور 5 آزاد ارکان ہیں۔ ساتھ ہی ایک نشست پاکستان راہِ حق کے
پاس ہے۔ اگر یہ سب ایک ساتھ بھی کھڑے ہوں تو قانونی طور پر ان کے پاس 178 نشستیں
ہیں جو کہ سادہ اکثریت سے بہت کم ہیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستان مسلم لیگ قائداعظم تو
حمزہ شہباز کو ووٹ نہیں دے گی۔ اس صورت میں اسپیکر راجہ پرویز اشرف اسمبلی کس طرح
چلائیں گے۔ کیوں کہ سادہ اکثریت کے بغیر اسمبلی چل ہی نہیں سکتی۔ اس بات کو بھی
ذہن نشین رکھا جائے کہ مرکز میں موجودہ حکومت کو محض سادہ اکثریت ہی حاصل ہے۔
شہباز شریف کو 174 ووٹ ملے ہیں جو کہ سادہ اکثریت سے صرف 3 ووٹ زیادہ ہیں۔ صدر کے
انتخاب کے لیے کم سے کم 270 ووٹ کی صورت ہوگی، جو کہ موجوہ صورتِ حال میں مشکل نظر
آ رہا ہے، کیوں کہ دو صوبوں میں پاکستان تحریکِ انصاف کو اکثریت حاصل ہے اور پنجاب
میں بھی بازی تحریکِ انصاف کے پاس ہے۔ ویسے تو اٹھاوریں ترمیم کے بعد صدر کی اہمیت
نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن پھر بھی عمران خان کے منتخب کردہ صدر کے ساتھ کام کرنا
شہباز شریف کے لیے نہایت مشکل ہوگا۔
سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے گورنر حضرات نے اپنے
عہدوں سے استیفے دے دیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ میاں شہباز شریف عمران خان کے مقرر کردہ
گورنروں کے ساتھ کام تو کرنے والے تھے ہی نہیں، تو ان لوگوں کو تو ویسے بھی رخصت
ہونا ہی تھا۔ بس تھوڑا پہلے رخصت ہوگئے۔
الیکشن کمیشن کے سربراہ اعلیٰ عدلیہ میں حلفیہ
یہ بیان دے چکے ہیں کہ سات مہینوں سے پہلے عام انتخابات کا انعقات ناممکن ہے۔ اس
صورت میں کیا یہ اسمبلیاں بغیر اپوزیشن کے کام کریں گی یا اس اسمبلی کو توڑ کر
اکتوبر تک نگراں حکومت یہ ملک چلائے گی۔
جس طرح تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی سے استیفے
دیے ہیں، اسی طرح اگر وہ کے پی کے، سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے استیفے دے دیتے
ہیں، ساتھ ہی ان کی حلیف جماعتیں بھی استیفوں کی طرف جاتی ہیں تو ایک بہت بڑا
آئینی بحران کھڑا ہو جائے گا۔ کیوں کہ اکتوبر سے پہلے نئی حلقہ بندیوں کے ساتھ عام
انتخابات ناممکن ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان الیکشن کمیشن کیا اقدامات اُٹھاتی ہے،
یہ بہت اہم ہے۔ لیکن عام انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہوجائے گا۔ ساتھ ہی یہ ایک بہت
بڑا معاشی بحران کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ کیوں کہ اگر نگراں حکومت بنتی ہے تو اس کے
پاس مہنگائی میں اضافے کے علاوہ کوئی اور حل نہیں رہ جائے گا۔ کیوں کہ نگراں حکومت
سے نہ تو آئی ایم ایف کوئی مذاکرات کرے گی اور نہ ہی کوئی اور ملک قرض یا امداد دے
گا۔ اس صورت میں ملک کو دیوالیہ ہونے کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی عوام
پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں بہت زیادہ تنگ ہے اور اب مزید مہنگائی برداشت کرنے کی
پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اگر اس صورت میں عمران خان کی ٹؤن اور لہجہ یہی رہا جو ابھی
ہے تو ملک میں خانہ جنگی کی صورتِ حال بھی ممکن ہے۔ اس صورت میں فوج اور عدلیہ بھی
مداخلت نہیں کرے گی، کیوں کہ عمران خان اپنی تقاریر میں اور ان کی میڈیا ٹیم سوشل
میڈیا پر فوج اور عدلیہ کو متنازہ بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ اور وہ اس میں
کسی طور پر کامیاب بھی رہے ہیں۔ اس وقت پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد اعلیٰ
عدلیہ اور فوج کو برا سمجھ رہی ہے، جو کہ ایک نہایت خطرناک صورتِ حال ہے۔
جس طرح عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور
پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کی حکومت آئی یا بنائی گئی، اس نے بہت سارے سوالات پیدا
کیے ہیں۔ کیا عمران خان پاکستان کے لیے اتنا خطرناک ثابت ہو رہا تھا کہ اس کا اس
طرح جانا انتا ضروری تھا؟
اگر شخصی لحاظ سے دیکھا جائے تو شہباز شریف اور
نواز شریف میں بہت زیادہ فرق ہے۔ نواز شریف خود پسند اور تعریف پسند شخص ہیں۔ نواز
شریف اپنے کام پر اس طرح توجہ نہیں دیتے جس طرح شہباز شریف دیتے ہیں۔ شہباز شریف
نوازشریف کے دورِ حکومت میں بھی ان کا بہترین نعم البدل ہو سکتے تھے، مگر افسوس کہ
وہ قومی اسمبلی میں نہیں تھے، بلکہ صوبائی حکومت میں تھے۔ جس طرح شہباز شریف نے
اپنے کام پر فوکس کرکے پنجاب خاص طور پر لاہور کو ترقی دی، وہ ایک اچھی تنظیم کاری
کی بہترین مثال ہے۔ بحثیتِ مجموعی سیاسی اور عسکری حلقوں میں شہباز کو نواز سے
زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ اگر نواز شریف شہباز شریف کو آزادی سے کام کرنے دیں اور ان
کے کاموں میں رکاوٹ نہ ڈالیں تو شہباز ایک اچھی وزیرِ اعظم ثابت ہو سکتے ہیں۔ انھیں
سب سے مل کر چلنا آتا ہے۔
اس وقت نئی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی
اور درست سمت میں سفر ہے، کیوں کہ مہنگائی میں کمی اور معاشی مسائل کو حل کرنا اس
وقت نہایت مشکل نظر آ رہا ہے۔ ذرِ مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہیں اور
پاکستان کو ابھی بھاری بل چکانے ہیں۔ عام عوام مہنگائی کے ہاتھوں نہایت تنگ ہے اور
مہنگائی میں کمی واحد طریقہ ہے، جس کے ذریعہ پی ڈی ایم اپنا وقار عوام میں قائم کر
سکتی ہے۔
کابینہ کی تشکیل کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ بہت
کم لوگ اس بات سے متفق ہوں گے کہ اس معاملے میں بلاول اور ذرداری کے خیالات یکسر
مختلف ہیں۔ ذرداری اس ڈوبتی کشتی میں سفر کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ ایک
جہاںدیدہ سیاست دان ہیں اور وہ کبھی بھی اس ڈوبتی کشتی کا سفر نہیں کرنا چاہیں گے۔
لیکن بلاول اپنے نانا کی طرح وزیرِ خارجہ بن کر اپنے سیاسی مستقبل کی ابتداء کرنا
چاہتے ہیں۔ یہ ایک بہت خطرناک فیصلہ ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اس وقت اس پوزیشن پر ایک
بہت ماہر اور تجربہ کار ڈیموکریٹ کی ضرورت ہے، جو تمام معاملات کو بہت احسن طریقہ
سے نبٹا سکے۔
چاروں گورنر نئے لگائے جائیں گے۔ بلوچستان میں
تو بلوچستان عوامی پارٹی کا گورنر لگا کر پی ڈی ایم بی اے پی کا احسان اُتار سکتی
ہے۔
سندھ کی صورتِ حال مکمل طور پر پیپلز پارٹی کے
حق میں ہے۔ موجودہ ایم کیو ایم اپنا مقام مکمل طور پر کھو چکی ہے۔ کیوں کہ ایم کیو
ایم کے اس فیصلے کے خلاف کراچی کے عوام میں ان کے لیے ایک غصہ پایا جاتا ہے۔ ان کو
مبینہ طور پر غدار کا لقب دے دیا گیا ہے۔ خود فاروق ستار نے بھی پریس کانفرنس کر
کے ان تمام کاروائیوں سے خود کو لاتعلق ظاہر کیا ہے۔ شہباز شریف سے ملاقات کے دوران
بھی وہ موجود نہیں تھے۔ یہ ایم کیو ایم کی تقسیم در تقسیم ہونے کی ایک اور نشانی
ہے۔ کراچی کے عوام کو ایم کیو ایم کے متبادل کسی قیادت کی تلاش ہے۔ مصطفیٰ کمال نے
اپنی پوری کوشش کی کہ وہ اپنے سیاسی قد کو اُونچا کریں، اس کے لیے انھوں کے عمران
خان کا ساتھ دینے کی بات بھی کی۔ لیکن بات بنی نہیں۔ ان کے فیلوور کم سے کم تر
ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی دو بنیادی وجہ ہے۔ پہلی کہ وہ الطاف حسین کے غدار ہیں۔
دوسرے وہ واحد لیڈر ہیں جو یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کے دور میں ایم کیو ایم
جرائم میں شامل رہی اور الطاف حیسن بھارت اور را سے ڈالرز لے رہے تھے۔ اس کے
باوجود وہ ایم کیو ایم سے منسلک رہے، جب تک ان کے پاس کراچی کی مئیرشپ تھی۔ اس طرح
وہ خود کو پاکستان کا غدار بھی ثابت کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے کراچی کی عوام ان پر
بھروسہ نہیں کر رہی۔ دوسرے یہ بھی کہ ان کے ساتھ ایم کیو ایم کے وہ لوگ شامل ہیں
جن کا ماضی بہت داغدار ہے۔ مصطفیٰ کمال کسی بھی طور پر ایم کیو ایم کا نعم البدل
نہیں ہو سکتے۔ اس وقت کراچی کا سیاسی میدان بالکل خالی ہے اور نئے قیادت کی تلاش
میں ہے۔ اب وہ بلاول ہوں گے یا عمران خان، اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ جس
نے بھی کراچی کے بنیادی مسائل (خاص طور پر اردو بولنے والوں کو دوسروں پر فوقیت
دینا جیسا بنیادی مسئلہ بھی شامل ہے) حل کیے، وہ کراچی کے ووٹ لے سکتا ہے۔ کراچی
کی عوام کو پورے پاکستان کے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور نہ ہی
وہ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ کراچی کا اپنا ایک کلچر اور ووٹ بینک ہے اور ان کی اپنی
ایک سوچ ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح سے الطاف حسین تک، ان کا مزاج کوئی نہیں بدل سکا۔
اب بھی وہی ہےکہ سب سے پہلے پاکستان۔ جو پاکستان کا غدار ہے، اس کو کراچی سے کچھ
نہیں ملنے والا۔ کیوں کہ یہاں پاکستان بنانے والے اور پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ
قربان کرنے والوں کی اولادیں رہتی ہیں۔ جن کی خون میں صرف پاکستان کی وفاداری دوڑ
رہی ہے۔
عمران خان کے تین کامیاب جلسوں نے ان کو دوبارہ
سیاسی زندگی دی ہے۔ اس میں ایک بہت بڑا ہاتھ ان کی میڈیا ٹیم کا ہے۔ کسی بھی دوسری
سیاسی جماعت کے پاس اتنا طاقتور اور معیاری میڈیا ٹیم کا نہ ہونا عمران خان کو
نہایت فائدہ دے رہا ہے۔ 27 مارچ کے جلسے نے عمران خان کو یہ راستہ دیکھایا کہ وہ
اسمبلی چھوڑ کر عوام میں جائیں اور اپنی پوری طاقت نئے الیکشن کروانے پر لگائیں۔
اس وقت عوام کی ایک بہت بڑی تعداد عمران خان کے اثر میں ہے اور اہم یہ ہے کہ ان
میں ایک بہت بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جو کہ اپنے ووٹ کا پہلی دفعہ استعمال کریں
گے۔
عمران خان کے پاس دو ہی اہم نقاط ہیں جن کے
ذریعہ وہ عوام کو اپنی طرف راغب کر رہے ہیں، ایک بین القوامی سازش ہے جو کہ بقول
ان کے حکومت سے جانے کی وجہ بنا ہے۔ وہ عوام کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ ان کو
پاکستان اور اسلام سے محبت کی سزا میں عالمی سازش کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس بات
کو وہ اتنی زور اور پُریقین انداز میں کہہ رہے ہیں کہ مخالفین کے ہزارہا ثبوت اور
گواہ پیش کرنے پر بھی عوام ان کی بات پر یقین کر رہے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان ان کو
غیرمشروط سپورٹ کر رہے ہیں۔ میرے ایک معزز استاد کے بقول عمران خان کو پورے
پاکستان میں ایسی ہی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے، جیسی کسی دور میں الطاف حسین کو سندھ
کے شہری علاقوں میں رہی تھی۔ یہ بات درست بھی نظر آ رہی ہے، کیوں کہ کراچی میں
کھڑے ہو کر ایم کیو ایم مردہ باد کا نعرہ لگوا دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی کی
عوام بھی الطاف حیسن کو بھول کر عمران خان کو سپورٹ کرنے کا سوچ رہی ہے۔ حالانکہ
عمران خان نے اپنے دورِ حکومت میں سندھ کے شہری علاقوں کے لیے کچھ نہیں کیا اور اگر
یہ کہا جائے کہ ان کے دور میں کراچی کو زیادہ نقصان پہنچا تو یہ بے جا نہ ہو گا۔
دوسرا نقطہ موجودہ حکومت کے ماضی کے کرپشن کے
کیس ہیں، ، جو پی ڈی ایم میں موجود جماعتوں نے اپنے دورِ حکومت میں ایک دوسرے پر
لگائے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف دیے گئے بیانات
ہیں جو وہ اپنے جلسوں میں اور تقاریر اور بیانات میں ایک دوسرے کے خلاف دیتے تھے۔ سب
سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کے پاس اپنی جماعت کے نقطہ نظر بیان کرنے کے
لیے مناسب افراد کی نہایت کمی ہے۔ اس کا ایک ثبوت ایک ٹاک شو میں جاوید لطیف کا
ایک بیان ہے، جس میں نواز شریف کے وطن واپسی کے جواب میں انھوں نے کہا کہ نواز
شریف عید کے فورا بعد پاکستان آ جائیں گے، کیوں کہ لندن کے ڈاکٹروں کے مطابق اب
پاکستان کے ڈاکٹر اور ہسپتال اتنے قابل ہو چکے ہیں کہ وہ نواز شریف کا بہتر علاج
کر سکتے ہیں۔ یہ بیان خود اپنا مذاق اُڑوانے والا ہے۔ یعنی عمران خان کے دور میں
ہسپتال اتنے بہتر ہو چکے ہیں کہ وہ نواز شریف کا علاج کر سکتے ہیں جو کہ مسلم لیگ
نواز کے دور میں نہیں تھے۔ ساتھ ہی جب خواجہ آصف نے امریکہ کے حق میں بیان دیا تو
ان کے بیان کو درست ثابت کرنے کے لیے شہباز شریف نے پورے پاکستان کو بھکاری بنا
دیا ہے۔ نواز لیگ کی اس کمزوری کا فائدہ عمران خان بہت بہتر انداز میں اُٹھا رہے
ہیں۔ پیپلز پارٹی اس معاملے میں قدرے بہتر ہے۔ اور اس کے افراد منہ کھولنے اور بات
کرنے سے پہلے سوچتے ہیں۔ پیپلز پارٹی پر زیادہ کرپشن کے کیس ہیں، لیکن وہ اتنے
بدنام نہیں جتنے نواز لیگ والے ہیں۔ اس کی وجہ نواز لیگ کی جانب سے دیے جانے والے
بیانات ہیں، جن کا زیادہ نقصان خود ان کو ہوتا ہے۔
میری ناقص رائے میں عمران خان اگر واقعی ملک کے
ہمدرد ہوتے تو وہ اسمبلی چھوڑ کر الیکشن کی طرف نہیں جاتے، کیوں کہ وہ بہت اچھی
طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں فی الوقت جنرل الیکشن ممکن ہی نہیں۔ اور نہ ہی سیاسی
بحران کسی بھی طرح پاکستان کے حق میں ہے۔ معاشی طور پر یہ سیاسی بحران معاشی بحران
کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اگر وہ دوبارہ حکومت میں آ بھی جاتے ہیں تو بھی ان کے
پاس معاشی بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ موجود نہیں، سوائے اس کے کہ وہ مہنگائی
میں اضافہ کرکے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شرائط کو پورا کرتے رہیں۔ ساتھ ہی جس
قسم کی زبان اور لہجہ وہ پاکستان کے معزز اداروں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، وہ
آنے والے ادوار میں پاکستانی سیاست کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوگی، کیوں کہ اُن کو
سننے اور اُن کی ماننے والوں میں ان نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے جن کو
اگلی کئی دہائیوں تک اس ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے اور ملک چلانا ہے۔ جس قسم
کے سیاسی کلچر کو وہ فروغ دے رہے ہیں، اس کے برے نتائج پاکستان کو بھگتنے ہوں گے۔
ایک بات بہت غور طلب ہے کہ ہر کچھ دنوں بعد کسی
نہ کسی کو یہ بات کیوں کہنی پڑتی ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہے۔ وہ یہ بات کس
کو باور کروا رہے ہوتے ہیں؟ آخر اس کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ کسی بھی مہذب ملک میں
ایسا نہیں ہوتا۔ فوج بہرحال حکومت کے زیرِ کنٹرول ہوتی ہے، لیکن یہ بیان یہ تاثر
دینے کی کوشش ہوتی ہے کہ جیسے فوج اور حکومت پاکستان کے حصہ دار ہیں۔ جیسے کسی
کاروبار کو بہتر طور پر چلانے کے لیے تمام شراکت داروں کا ایک پیج ہونا ضروری ہوتا
ہے، بالکل اسی طرح یہاں بھی نظر آتا ہے۔ اب تو اس میں عدلیہ بھی بطور پارٹنر شامل
ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہ بات سیاسی حکومت کی کمزوری کو ثابت کرتی ہے۔ اب اس روایت کو
ختم ہونا چاہیے اور آئی ایس پی آر کو یہ بات حکومتوں کو باور کروانی ہوگی کہ اب
فوج کی صفائی فوج نہیں بلکہ سیاسی اور منتخب حکومت دے گی۔ اس سے فوج کے وقار میں
اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ فوج کا صفائی پیش کرنا ان کے جرم کو تسلیم کرنا جیسا لگتا ہے۔
اس سے اس ادارے کا وقار مجروع ہوتا ہے۔ فوج کے اعلیٰ حکام اس بات کو سمجھیں کہ اگر
کچھ لوگ فوج کو گالیاں دیتے ہیں تو اس سے فوج کے وقار کو کچھ نہیں ہوتا۔ اس کا
مورال اس وقت نیچے آتا ہے، جب وہ غیر فوجی معاملات میں شامل ہوتے اور صفائیاں دیتے
نظر آتے ہیں۔ یہ کام منتخب حکومت کا ہے کہ وہ ملک کے باوقار اداروں کے تقدس کا
خیال رکھے اور ان کو سیاسی ہونے سے بچائے۔ ساتھ ہی یہ بات تمام سیاسی افراد اور
جماعتوں کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ افراد الگ ہوتے ہیں اور ادارے الگ ہوتے
ہیں۔ جنرل باجوہ برا ہو سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ "یہ جو غنڈا گردی ہے، اس کے
پیچھے وردی ہے"، کسی طور پر مناسب نہیں۔ اس طرح کے نعروں اور باتوں کی ختم
ہونا ہوگا۔ سیاسی رہنماؤں کو اپنے جلسوں میں اس قسم کے نعروں کی مخالفت کرنی ہوگی
اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو جلسوں میں بھی اس بات کی نفی کرنی ہے اور تنبہی کرنی
ہے کہ اس قسم کی باتوں اور نعروں سے اجتناب برتا جائے۔
محمد ندیم جمیل
شبعہ ابلاغِ عامہ - جامعہ کراچی
17 اپریل، 2022
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں