زندگی - ایک تلخ حقیقت
زندگی کیا ہے؟ کسی کے لیے
مذہبی نقطہِ نظر سے ہوتی ہے۔ کوئی اس کو فلسفے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ کسی کے لیے یہ
کامیابی اور ناکامی کا نام ہے۔ کسی کے لیے یہ ایک بوجھ کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی کے
لیے وقت ہے۔ کسی کے جنت کی طرح حسین ہے، کسی کے لیے دوزخ کی طرح عذاب کی سزا کی
طرح ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کے لیے زندگی بہت الگ ہوتی ہے۔ وہ زندگی جی نہیں رہے ہوتے،
جھیل رہے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے زندگی کچھ بھی نہیں ہوتی۔ وہ زندگی کو اپنے وجود کے
ساتھ اپنے کندھوں پر رکھ کر رینگ رینگ کر گھسیٹ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے ہر دن
جمعہ، ہفتہ، اتوار، پیر ایک جیسا ہوتا ہے۔ بہت مشکل سے گزرنے والا نہ ختم ہونے
والے بہت برے وقت کی طرح۔ ان کے لیے ہر موسم سردی، گرمی، بہار، برسات ایک جیسا
ہوتا ہے، تکلیف دہ اور پریشان کُن۔ ان کے لیے مذہب کچھ نہیں ہوتا، بلکہ ان کا کوئی
مذہب ہوتا ہی نہیں۔ کسی مذہب کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ جی نہیں رہ ہوتے،
بس زندہ ہوتے ہیں اور ایک دن مر جاتے ہیں۔ ان کے جینے مرنے سے کسی کو کوئی فرق
نہیں پڑتا۔ یہ کسی ایک علاقے، شہریا ملک میں نہیں بلکہ پوری دنیا کے ہر علاقے میں
ہوتے ہیں۔ کوئی ان کو گنتا ہی نہیں۔ ان کے پاس سے گزرتے ہوئے کوئی ان کو دیکھنا
بھی پسند نہیں کرتا۔ جیسی زندگی وہ گزار رہے ہوتے ہیں، اس کا تصور بھی محال ہے۔
کسی عام شخص کے لیے اس زندگی کا ایک دن بھی گزارنا بہت مشکل ہے۔ آپ ایسے بے شمار
افراد اپنے اطراف میں روز دیکھتے ہیں۔ ہم انہیں بہت برا سمجھتے ہیں۔ ان سے نفرت
کرتے ہیں۔ ان کو ملک، قوم اور معاشرے پر بوجھ اور معاشرے کی گندگی سمجھتے ہیں۔
کبھی یہ سوچا ہے کہ وہ آپ کو کیا سمجھتے ہیں؟ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ آپ کے
لیے ان کے اندر کیا جذبات ہیں؟ کبھی ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش
کیجئیے گا۔ ان کی آنکھوں میں عام افراد کے لیے صرف نفرت ہوتی ہے۔ میں ان کی
طرفداری نہیں کر رہا، لیکن کبھی ان کے اور اپنے درمیان فرق کو سوچنے، سمجھنے اور
محسوس کرنی کی کوشش کیجئیے گا۔ ان میں سے بہت سے اپنی وجہ سے وہاں تک پہنچے ہیں،
بہت سے دوسروں کی وجہ سے وہاں ہیں اور بہت سے قدرت کی وجہ سے۔ کبھی سکون سے بیٹھ
کر ان کے اور اپنے درمیان فرق محسوس کیجئیے گا۔ آپ کو احساس ہوگا کہ بہت سی چیزیں
جن کی آپ کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں، ان کو میسر ہی نہیں۔ اگر میں اپنی بات کروں
تو جب میں صبح اُٹھتا ہوں تو مجھے واش روم اور واش روم میں پانی میسر ہوتا ہے، ان
کو نہیں ہوتا۔ میں روز نہاتا ہوں، وہ شائد بارش کے بارش نہاتے ہیں۔ میرا اپنا کمرا
ہے، ان کا کمرا تو دور، گھر تک نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ مجھے وقت پر کھانا کھا لوں
گا، چاہے میں گھر پر ہوں، راستے میں ہوں، آفس میں ہوں۔ ان کو یہ سہولت میسر نہیں۔
میرے پاس سواری موجود ہے۔ جہاں جانا چاہوں جا سکتا ہوں۔ وہ نہیں جا سکتے- میں اللہ
کی عبادت کر سکتا ہوں، اپنی عاقبت سنوارنے کی کوشش کر سکتا ہوں، وہ نہیں کر سکتے۔
سردی، گرمی، برسات میں میرے پاس گھر ہے، کمرا ہے، بستر ہے، ان کے سوچ میں یہ چیزیں
نہیں ہیں۔ آپ تصور کریں کہ رات کو جب میں سوتا ہوں تو صبح اُٹھ کر مجھے پتہ چلتا
ہے کہ رات کو بارش ہوئی تھی، وہ بارش شروع ہوتے ہی چھپنے کی جگہ ڈھونڈنے کی کوشش
کرنا شروع کردیتے ہیں اور جب تک بارش ہوتی رہتی ہے، وہ اسی جگہ دبکے رہتے ہیں۔ کوئی
مجھے دیکھ کر نفرت سے آنکھیں نہیں پھیرتا، ان کو دیکھ کر ہر کوئی نفرت اور بے زاری
کا اظہار کرتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے بجلی چلی جائے تو میرا موڈ خراب ہو جاتا ہے۔
کوئی چیز مجھے میری مرضی کی نہ ملے تو غصہ آتا ہے، جیسے ان تمام چیزوں پر میرا
پورا حق ہے۔ یہ سب کچھ آپ سب کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ کبھی کوئی نہیں سوچتا کہ اگر سب
کچھ حاصل ہے تو اس کی وجہ وہ خود نہیں، بلکہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے اسے یہ سب
عطا کیا ہے۔ شائد ہی کوئی ہوگا جو ان تمام چیزوں کے لیے اللہ کا شکر ادا کرتا ہو۔
گھر کے لیے، محفوظ کمرے کے لیے، پرسکون بستر، سواری کے ہونے، ملازمت یا کاروبار کے
ہونے، دوست احباب، بھائی بہن، والدین کے ہونے، تعلیم کے لیے، سہولیات کے لیے۔ بہت
ساری چیزیں ہمیں قدرت عطا کرتی ہے۔ بہت سی چیزیں ہم خریدتے یا حاصل کرتے ہیں۔ آپ
نے راستے پر سفر کے دوران ٹرانس جینڈرز کو دیکھا ہوگا۔ کبھی اللہ کا شکر ادا کیا
کہ اللہ نے ہمیں مکمل مرد یا عورت بنایا۔ شکوہ تو ہم کرتے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے
کم صورت اور کمزور بنایا، لیکن مرد یا عورت بنانے کا شکر ادا نہیں کرتے۔ کبھی کسی
نے ٹیکسی، بس، رکشے کا شکریہ ادا کیا ہے کہ اس نے جلدی سے اور بغیرچلے آپ کو آپ کی
منزل پر پہنچادیا۔ اس کے لیے اللہ کا شکر ادا کیا۔ کبھی منزل پر پہنچنے پر اللہ کا
شکر ادا کیا کہ بغیر حادثہ کا شکار ہوئے، بغیر پریشانی کے اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ جب
آپ خود کو میسر سہولیات، رشتے، چیزوں کا موازنہ ان لوگوں سے کریں گے، جن کے پاس یہ
سب کچھ نہیں تو شائد ہر وقت آپ اللہ کا شکر ہی ادا کر رہیں ہوں گے۔ یہی زندگی کی تلخ
حقیقت ہے کہ جس کے پاس جو ہے وہ اس کا شکر ادا نہیں کرتا، لیکن جو اس کے پاس نہیں،
اس کا شکوہ لازمی کرتا ہے۔ جب آپ ان کے بارے میں سوچیں گے جو زندگی گزار نہیں رہے
بلکہ جھیل رہے ہیں تو آپ کو اپنی زندگی جنت جیسی لگے گی اور خود بخود اللہ کا شکر
منہ سے نکلے گا۔
محمد ندیم جمیل
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں