جمعرات، 30 نومبر، 2023

 

 کراچی کی سیاست

کراچی میں سردی کی آمد آمد ہے۔ موسم میں خنکی بڑھتی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی سیاسی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ دنوں ایم کیو ایم کے وفد نے نواز لیگ کے وفد سے ملاقات کی اور ان کے سامنے ساتھ رہنے کے لیے کچھ مطالبات رکھے۔ اس کے علاوہ نواز شریف نے پیرپگارا سے ملاقات کی اور تمام مسلم لیگ دھڑوں کو ایک ساتھ مل کر الیکشن کی جانب جانے کی بات کی۔ نون لیگ کی فنگشنل لیگ سے ملاقات اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ مستقبل میں نون لیگ اور پی پی پی ایک دوسرے کی حریف جماعتیں ہوں گی۔ یہاں پی ڈی ایم کی موجودگی نظر نہیں آتی۔ یعنی کہ جے یو آئی (ف) کو بھی اپنی راہیں تلاش کرنے ہوں گی۔ یا تو وہ نون لیگ کے ساتھ کھڑی ہو گی یا وہ پی پی کا ساتھ دے گی۔

دوسری طرف ایم کیو ایم کا نون لیگ کے وفد سے ملنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کراچی میں نون لیگ ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کراچی میں اپنی حاکمیت قائم کرنا چاہتی ہے۔ کراچی کے علاوہ بقیہ سندھ کے لیے اس کو فنگشنل لیگ کا سہارا چاہیے ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اب کراچی میں متحدہ کی وہ طاقت نہیں رہی جو پہلے تھی۔ پچھلے الیکشن میں کراچی کی عوام نے ثابت کیا کہ لسانی بنیاد پر بننے والی یہ جماعت اپنے ہی لوگوں سے غداری کی مرتکب ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم سے نکل کر اپنی جماعت بنانے والے مصطفیٰ کمال بھی کوئی کمال نہیں دکھا سکے اور کراچی میں ایک بھی سیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ کمال صاحب نے اپنے ووٹرز کو باور کروانے کی کوشش کی کہ الطاف حسین پاکستان کا غدار ہے اور موجودہ ایم کیو ایم اس کے ساتھ کھڑی ہے اور کراچی کی تباہی میں موجودہ ایم کیوایم کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اب جب کہ وہ خود بمہ اپنی پارٹی کے اس جماعت کا حصہ بن چکے ہیں تو وہ اپنے چاہنے والوں کو پی ایس پی بنانے کا کیا جواز پیش کریں گے؟ کیا ایک بار پھر ایم کیوایم ایک سیاسی جماعت سے الحاق کرے گی، اور پھر کچھ عرصہ بعد پریس کانفرنس کے ذریعہ اپنے ووٹرز کے سامنے رونا روئے گی کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ غالب گمان ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ کیوں کہ ایم کیوایم، نون لیگ، جماعتِ اسلامی اور دوسری جماعتیں مل کر بھی سندھ میں حکومت نہیں بنا سکتیں۔ یہ بات بلدیاتی الیکشن میں ثابت ہوچکی ہے۔ اس بات کو ذہن نشین بھی رکھنا ہوگا کہ اس گروہ بندی میں پی ٹی آئی شامل نہیں ہو سکتی۔  پی ٹی آئی اور نون لیگ ایک میز پر نہیں بیٹھ سکتے۔ اگر بیٹھ گئے تو اسے سیاسی خودکشی ہی کہا جا سکتا ہے۔

یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سندھ میں بغیر پی پی پی کے کوئی بھی اتحاد کامیاب نہیں ہو سکتا۔ سندھ میں پی پی پی ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ فنگشنل لیگ کراچی کے علاوہ سندھ میں تھوڑی کامیابی حاصل کرے۔ اس وقت پورے سندھ پر پی پی پی صوبائی، قومی اور بلدیاتی حکومت کے طور پر موجود ہے۔ اور اس کا پورا فائدہ پی پی پی کو ہوگا۔

کراچی میں اس وقت پی پی پی کی بلدیاتی حکومت موجود ہے۔ اور مرتضیٰ وہاب کراچی کے مئیر کے طور پر پی پی پی کے لیے اور کراچی کے لیے بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں کہ اگر بلدیاتی حکومت نے کراچی میں اچھا کام کر لیا اور کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نظر آئی تو ائندہ صوبائی اور قومی اسمبلی میں بھی کراچی سے پی پی پی کے نمائندے ہی موجود ہوں گے۔ ان کے ٹکر کی کوئی جماعت اس وقت کراچی میں نظر نہیں آتی۔ ایم کیو ایم کے وقتی فائدے والی سیاست ان کو لے ڈوبی ہے۔

جس بھی جماعت کو سندھ کی حکومت میں حصہ دار بننا ہوگا، اس کو پی پی پی سے الحاق کرنا ہی ہوگا۔ بغیر پی پی پی کے سندھ اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنا ناممکن ہے۔ نون لیگ اور پی پی پی کا ایک ساتھ بیٹھنا غیر فطری نظر آ رہا تھا۔ وہ صرف ایک ایجنڈے پر ایک ہوئے تھے اور وہ تھا پی ٹی آئی کو سائڈ لائن لگانا اور وہ کام جتنا ہو سکتا تھا، ہو چکا۔ اب ان دونوں کا ایک ساتھ بیٹھنا غیر فطری ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان کے بنیادی اصول ہیں۔ پی پی پی اور نون لیگ دونوں کا جنم فوج کے ہاتھوں ہوا ہے۔ لیکن 1976ء کے بعد کبھی بھی پی پی پی نے اسٹبلشمنٹ کا سہارا نہیں لیا۔ ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کا شکار ہی رہی۔ بہت نقصانات اُٹھائے، لیکن اپنے اصول نہیں توڑے۔ جب کہ نون لیگ نے دو دفعہ اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں ہزمیت اُٹھانے کے بعد بھی (1998ء اور 2018ء میں) ایک بار پھر اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ وہ ایک بار پھر اسٹبلشمنٹ کے کندھے پر چڑھ کر حکومت میں آنا چاہتی ہے۔

پنجاب کا سیاسی منظرنامہ کچھ حد تک نون لیگ کے حق میں نظر آ رہا ہے۔ پنجاب کا کردار فیصلہ کُن ہوتا ہے۔ وہاں جیتنے والی جماعت حکومت بناتی ہے۔ لیکن اس بار ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کو منظرنامے سے باہر کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ اس کی موجوگی میں پنجاب میں اکثریت حاصل کرنا ایک خواب جیسا لگتا ہے۔ غیر سیاسی طاقتوں کو بھی بہت محنت کرنا ہوگی، اگر وہ نون لیگ کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پنجاب میں ذرداری صاحب بھی اپنے سیاسی پتے کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے کچھ دنوں کے لیے لاہور میں قیام کے انہوں نے چودھری شجاعت اور دوسرے بڑے سیاسی رہنماؤں سے رابطے کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ اسی لیے نون لیگ جواب میں سندھ میں فنگشنل لیگ اور ایم کیو ایم سے تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ تاکہ ذرداری کی توجہ پنجاب سے ہٹ کر سندھ پر مبذول ہوجائے۔ بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا کیوں کہ ذرداری صاحب واقعی سب پر بھاری ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں قیام کرکے پی ٹی آئی جیسی مضبوط حکومت کو گرانے کا جو کارنامہ انجام دیا ہے، وہ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان کو شکست دینا نواز شریف کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔ کیوں کہ نواز شریف کی سیاست کی باگ دوڑ مریم نواز کے ہاتھوں میں ہے۔ مریم نواز سازشیں تو کر سکتیں ہیں، سیاست نہیں۔

بالخصوص سندھ اور بالعموم کراچی کی سیاست میں پیپلز پارٹی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح بلدیاتی حکومت کراچی میں کام کروا رہی ہے (کام کوئی بھی کروائے، اس وقت کریڈیٹ پیپلز پارٹی کو ہی ملے گا)، صوبائی اور مرکزی الیکشن میں اس کی کچھ سیٹیں تو پکی ہیں۔ ایم کیو ایم کو بجائے نواز لیگ کے پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت میں سمجھ بوجھ کا اضافہ نظر آنے لگا ہے۔ بلاول کی اردو چاہے خراب ہو، لیکن اس کا ویژن اچھا نظر آ رہا ہے۔ اس کو "بچہ" سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح نواز شریف اور مولانا صاحب اس کو نظرانداز کر رہے ہیں اور بچہ کہہ کر اہمیت نہیں دے رہے، ان کو سمجھنا چاہیے کہ اگر ذرداری کی سیاسی بصیرت نہ ہوتی تو عمران خان کی حکومت کو ہٹانا ناممکن تھا۔ ایم کیوایم کی کراچی میں سیاست تقریباََ اختتام پر ہے۔ مزید یہ کہ انہوں نے نواز لیگ سے امیدیں باندھ لی ہیں۔ صرف شہر میں جھنڈے لگا کر الیکشن نہیں جیتا جا سکتا۔ اس کے لیے ان کو گراؤنڈ پر انا ہوگا۔ الیکشن کی تاریخ 8 فروری ہے، جو کہ بہت دور نہیں۔ اگر ابھی بھی ایم کیوایم عوام میں نہیں جائے گی تو ممکن ہی نہیں کہ ایک سیٹ بھی جیت چکے۔ ان کو سمجھنا چاہیے کہ عوام ان سے بیزار آ چکی ہے۔ ان کو دوبارہ شہر پر مسلط کرنے کا خطرہ شہری آبادی لینے کو تیار نہیں۔ یہ واحد جماعت ہے، جو اپنے ہی ووٹرز کو لوٹنے کا الزام اپنے سر پر رکھتی ہے۔ کسی اور جماعت پر یہ الزام نہیں۔ اس میں کس حد تک سچائی ہے، یہ تو ایم کیو ایم والے ہی جانتے ہیں، لیکن عوامی رائے ان کے حق میں نہیں ہے۔ اس رائے کو وہ جھنڈے لگا کر تبدیل نہیں کر سکتے۔ ایم کیو ایم پر دوسرا سب سے بڑا الزام ہے، وہ الیکشن میں دھاندلی کا ہے۔ جعلی ووٹوں کے دم پر جیتنے کا الزام ان پر شروع سے ہے۔ اس وقت نہ تو الیکشن کمیشن پر ان کا زور ہے اور نہ ہی بلدیاتی حکومت ان کے ساتھ ہے۔ نہ ہی ان کے پاس فنڈز ہیں۔ ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عوام میں جائیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ الیکشن میں صرف دو مہینے رہ گئے ہیں، لیکن اب تک ایم کیو ایم کے نہ تو امیدواروں کا پتہ ہے اور نہ ہی رابطہ آفسوں کا۔ نہ کوئی کارنر میٹنگز ہیں اور نہ ہی کوئی گہماگہمی۔ جب کہ پیپلز پارٹی کراچی میں بہت خاموشی سے اپنی جیت کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔ سندھ میں تو اس کو شکست دینا نہ تو ایم کیو ایم کے بس میں ہے اور نہ ہی نواز لیگ کے۔ اس کے لیے فنگشنل لیگ کو ملانے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن وہ ڈوبتی کشتی میں سوار ہونا پسند نہیں کرے گی۔ دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ 

   

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں