جمعہ، 28 اکتوبر، 2016

صحافتی حقوق اور صحافتی فرائض


سِرل المیڈا نے 06 اکتوبر 2016 کو پاکستان کی فوجی قیادت اور جمہوری قیادت کے مابین ہونے والی میٹنگ کی تفصیلات ڈان اخبار میں اپنے کالم میں بیان کی۔ جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ کو بتایا گیا کہ مولانا مسعود اظہر ، جیش ِ محمد اور حقانی  نیٹ ورک کے خلاف کاروائیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سفارتی طور پر دنیا میں تنہا ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان کے دیرینہ دوست ملک چین کو بھی پاکستان کی مدد کرنے میں دشواری ہورہی ہے۔
یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ پاکستان سفارتی طور پر کسی قدر تنہا دیکھائی دیتا ہے اور اس کی ایک جھلک ہم سارک سربراہ کانفرس کے منسوخ ہونے میں دیکھ سکتے ہیں جب کہ دوسری طرف   16 اکتوبر کو ہونے والی برکس کانفرس جو بھارت کے شہر گوا میں ہوئی ، اس میں تمام ممبر ممالک کی شرکت بھی سب کے سامنے ہے۔ اس کانفرس میں بھی بھارت نے پاکستان کے خلاف ہزراہ سرائی کی اور نام لیے بغیر پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ قرار  دیا جبکہ چین چاہتے ہوئے بھی پاکستان کا دفاع کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آیا۔  چین اپنے  مفاد کے لیے ہی سہی لیکن پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ کچھ حد تک بچی ہوئی ہے۔ 
المیڈا کی یہ رپورٹ صحافت کے نقطہ ِ نظر سے غلط نہیں اور نہ ہی ڈان اخبار نے اس خبر کو شائع کرکے پاکستان کے قوانین کی کسی قسم کی خلاف ورزی کی ہے، اور نہ ہی اس خبر کی صداقت میں جھوٹ کی ملاوٹ نظر آتی ہے کیوں کہ ڈان اخبار اتنی بڑی خبر بغیر شائع ہی نہیں کرسکتا۔ جس کا اعتراف خود ڈان کے ایڈیٹر نے کیا ہے کہ  یہ خبر مصّدقہ ہے اور ڈان کے پاس اس کے نا قابلِ  تردید ثبوت موجود ہیں۔
پاکستان کے پریس اور پبلیکیشن آرڈیننس سیکشن 11 کے سب- سیکشن ا (اے) کے مطابق کوئی بھی صحافی اپنی خبر کے ذرائع بتانے کا پابند نہیں  اور نہ ہی حکومت ِ وقت اس کو خبر کے ذرائع بتانے کے لیےذبردستی  کرسکتی ہے،  جب تک کہ بات قومی سلامتی کی نہ ہو۔
کسی بھی صحافی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک کا وفادار ہو اور اپنے ملک کے مفادات کو ذاتی اور ادارتی مفادات پر ترجیح  دے۔  سِرل المیڈا کی یہ رپورٹ کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو اِس خبر کی اشاعت کا وقت غلط ہے۔ اِس وقت اِس قسم کی خبروں سے پاکستان سفارتی طور پر مزید تنہا ہوسکتا ہے اور پاکستان کے دشمن ملک خاص طور پر بھارت ، امریکہ اور اسرائیل اِس طرح کی خبروں کو بنیاد بنا کرپاکستان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پاکستان اِس وقت حالتِ جنگ میں ہے ، دشمن بھارت کی فوجیں باڈر پر کھڑی ہیں، امریکہ مسلسل "ڈو مور" کا مطالبہ کر رہا ہے، روس پاکستان کے مزائیلوں کے توڑ کے طور پر بھارت کو جدید اینٹی میزائل سِسٹم دے رہا ہے۔ اِس صورتِ حال میں صحافیوں خاص طور پر سِرل المیڈا جیسے صحافیوں کو پہلے پاکستان کا مفاد دیکھنا چاہیے ، کیوں کہ اِس قسم کی خبروں سے پاکستان کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو ، پاکستان کے دشمنوں کا فائدہ لازمی ہوگا۔   
 محمد  ندیم جمیل –  شعبہِ ذرائع ابلاغ -  جامعہ ِ کراچی

                19 اکتوبر 2016

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں