جمعہ، 28 اکتوبر، 2016

قانون کہاں ہے؟

اسلام نے جتنی عزت، احترام اور حقوق خواتین کو دیے ہیں اور کسی مذہب نے نہیں دیے۔ لیکن جس طرح اسلام اور عزت کے نام پر خواتین کے حقوق کا استحصال پاکستان میں ہو رہا ہے، وہ ایک لحمہ ِ فکریہ ہے۔ یہاں دن دہاڑے خواتین کو عزت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے اور مجرم کو مجرم کے بجائے ہیرو اور اسلام کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ چاہے وہ بریڈ فورڈ کی صائمہ شاہد ہو، ملتان کی فوزیہ عظیم (قندیل بلوچ) ہو یا اورنگی ٹاؤن کی سمیرا۔ ایسے ہزاروں نام ہیں جو غیرت کے نام پر قربان ہو کر منوں مٹی تلے دب گئے اور شائد اب ان کے لئے انصاف کی بات کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ قاتل وہ ہوتے ہیں جن پر سب سے زیادہ بھروسہ کیا جاتا ہے یعنی باپ، بھائی، شوہر اور دوسرے سگے رشتے دار جن سے خون کا رشتہ ہوتاہے اور جن کی موجودگی میں خواتین خود کو دوسروں سے محفوظ تصور کرتی ہیں۔ دیہاتوں میں تو ایسا ہوتا ہے کہ اگر مرد سے باہر کسی کا قتل ہو جائے تو وہ گھر آکر اپنی کسی بھی رشتہ دار یعنی بہن، بھابھی، بیوی، بیٹی یہاں تک کہ ماں کو مار کر اس معاملےکو عزت کے نام پر قتل کا نام دیدیتا ہے اورپورا خاندان اس کو عزت کا رکھوالا سمجھ کر اس کو قانون سے بچانے میں لگ جاتا ہے۔ اگر معاملہ کارو کاری تک جائے تو یہاں بھی شکار عورتیں ہی ہوتی ہیں۔ پنجاب میں خواتین کے حقوق کا ایک بل پاس ہوا، لیکن اس کا کوئی فائدہ ہوا؟ نہیں۔ کیونکہ قانون بنانے سے اہم اس قانون پر عمل کروانا ہوتاہے۔  اور افسوس کی بات ہے کہ پولیس بھی جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قاتل کا ساتھ دیتی ہے۔ اگر پولیس غیر جانبدار ہو جائے تو آدھے سے زیادہ جرائم اپنے آپ ختم ہو جائیں۔  
                        جہاں طوفان بنیاد و فصیل و در میں رہتے ہیں            ہمارا حوصلہ دیکھو ، ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں

محمد ندیم جمیل - جامعہ ِ کراچی - 12 ستمبر 2016

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں