جمعرات، 28 اپریل، 2022

 

بلاول بطور وزیرِ خارجہ

بلاول بھٹو زرداری، ایک ایسا نام جس کے بارے میں سب جاننا چاہتے ہیں۔ یہ ان لوگوں میں شامل ہیں، جن کو دولت، شہرت، عزت اور مرتبہ میراث میں ملتا ہے۔

بلاول پاکستان کے دو مشہور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ والد آصف علی زرداری کی جانب سے ان  کا تعلق زرداری خاندان سے ہے۔ زرداری خاندان بلوچ نزاد سندھی خاندان ہے۔ آصف علی زردای کی والدہ حسن علی آفندی کی پوتی تھیں۔ آصف علی زرداری اپنے والد حاکم علی ذرادری کے اکلوتے بیٹے اور ذرداری خاندان کے سربراہ اور سردار ہیں۔ جب کہ بلاول زرداری بھی اپنے والد کے اکلوتے اولادِ نرینہ ہیں۔ اس طرح یہ مستقبل میں ذرداری خاندان کے بِلا شرکتِ غیرے سردار اور سربراہ ہیں۔

دوسری جانب والدہ بینظیر بھٹو کی جانب سے ان کا تعلق بھٹو خاندان سے ملتا ہے۔ بھٹو خاندان سندھ کے سب سے زیادہ امیر اور مشہور خاندانوں میں سے ایک ہے۔ بھٹو خاندان کا آبائی علاقہ رتوڈیرو ہے اور وہ وہاں مغلوں کے دور سے آباد ہیں۔ بھٹو خاندان کے دو افراد ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو پاکستان کے وزیرِ اعظم رہ چکے ہیں۔ یہ اپنے میں ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم اور بے نظیر بھٹو پاکستان اور دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم کا ریکارڈ اپنے پاس رکھتی ہیں۔   

اس طرح دیکھا جائے تو والد اور والدہ دونوں جانب سے بلاول ایک اچھی شہرت اور ساکھ کے مالک ہیں۔ بلاول کے والدین پاکستان کے سربراہ رہ چکے ہیں۔  ان کے والد آصف علی ذرداری پاکستان کے گیارویں صدر تھے، جب کہ والدہ پاکستان کی گیارویں وزیرِ اعظم رہی ہیں۔

بلاول 21 ستمبر 1988 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کراچی گرامر اسکول، کراچی اور فروبلز انٹرنیشنل اسکول، اسلام آباد سے حاصل کی۔ 1999ء میں اپنی والدہ کے ساتھ دبئی منتقل ہونے کے بعد اپنی تعلیم راشد اسکول فار بوائز، دبئی سے مکمل کی۔ مزید تعلیم کے لیے 2007ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی، لندن، انگلینڈ کا انتخاب کیا اور 2010ء میں مارڈن ہسٹری اور سیاسیات میں گریجیویشن مکمل کیا۔ انھوں نے اپنے اسکول میں تائی کانڈو میں بلیک بیلٹ بھی حاصل کیا ہے۔

2007ء میں بے نظیر کی اچانک شہادت کے بعد بے نظیر کی وصیت کے مطابق بلاول کو بلاول ذرداری سے بلاول بھٹو ذرادری کا نام دیا گیا اور تاحیات پاکستان پیپلز پارٹی کا چئیرمین منتخب کیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 19 سال تھی۔ کم عمری اور تعلیم مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے والد آصف علی ذرداری کو کو-چئیرمین کے طور پر منتخب کیا گیا اور بلاول کی پارٹی سے سنبھالنے تک پارٹی کی ذمہ داری آصف علی ذرداری کے سپرد کی گئی۔

بلاول نے سیاسی ماحول میں آنکھ کھولی اور ان کی پرورش ایک ایسے سیاسی گھرانے میں ہوئی جو پاکستان کے سب سے مشہور سیاسی گھرانوں میں سے ایک ہیں۔ بلاول نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے والد کی اپنے ماموں میر مرتضٰی بھٹو کے قتل میں گرفتار اور اپنی والدہ کو اپنے والد کی رہائی کے لیے عدالتوں کے چکر لگاتے دیکھا ہے۔ وہ بہت کم سنی میں اپنی والدہ کے ساتھ عدالت کے باہر اپنی والد کی پیشی پر موجود رہے تھے۔ لازمی وہ یہ سب بھولے نہیں ہوں گے۔ اس کے فورا بعد پاکستان سے باہر خود ساختہ جلاوطنی میں ان کی پرورش ہوئی۔ جو کہ خود اپنے اندر ایک سزا جیسا ہے، جو کہ ان کو بے نظیر اور آصف علی کی اولاد ہونے پر ملی۔ جس وقت پرویز مشرف نے ایک این آر او کے ذریعے تمام سیاسی مقدمات ختم کیے تو بے نظیر اور آصف علی پر لگائے ہوئے الزامات  بھی کالعدم قرار پائے اور بے نظیر خودساختہ جلاوطنی ترک کر کے پاکستان آ گئیں۔ لیکن شائد وہ جانتی تھیں کہ وہ موت کے سفر پر جا رہی ہیں، اسی وجہ سے وہ اپنے ساتھ اپنے شوہر آصف علی اور بیٹے بلاول کو نہیں لے کر آئیں۔ بےنظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی وصیحت کے مطابق بلاول ذرداری کو بلاول بھٹو ذرداری کا نام دیا گیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کا چئیرمین نامزد کر دیا گیا۔ اس وقت بلاول برطانیہ میں اپنی تعلیم مکمل کر رہے تھے، جس وجہ سے وقتی طور پر پارٹی کا نظم و ضبط ان کے والد اور بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو کوچئیرمین نامزد کرکے دے دیا گیا۔

جب بلاول نے سیاسی میدان میں قدم رکھا تو ان کی تربیت اور رہنمائی کے لیے ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو حیات نہیں تھے۔ اس وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی سیاسی تربیت زیادہ تر ان کے والد آصف علی ذرداری نے کی۔ جس وقت بلاول نے عملی سیاست شروع کی تو اس وقت پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی اور نواز شریف ملک نے وزیرِاعظم تھے۔ لازمی ہے کہ نواز شریف اور مسلم لیگ نون ان کے حلیف تھے اور اسی وجہ سے بلاول کی ابتدائی تقاریر اور بیانات نون لیگی رہنماؤں کے خلاف رہے اور وہ تقاریر میں ان کی بھرپور مخالفت کرتے رہے۔ 2018ء کے الیکشن کے نتیجے میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت وجود میں آئی اور پی ٹی آئی نے بہت زیادہ کڑا اور جابرانہ احتساب کی سلسلہ شروع کیا اور مخالفین کے تمام بند اور منجمد کیسوں کو کھلوایا۔ اس بات کو مدِنظر رکھا جائے کہ تحریکِ انصاف کے دور میں نئے کیس بہت کم بنائے گئے۔ زیادہ تر کیس وہ ہیں، جو کہ پیپلز پارٹی کے ادوار میں نواز لیگ پر اور نواز لیگ کے ادوار میں نون لیگ پر بنائے گئے۔

عمران خان اور تحریکِ انصاف کے خلام ملک کی 11 سیاسی جماعتوں نے مل کر ایک متحدہ سیاسی جماعت پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (Pakistan Democratic Movement) (ُPDM) کی بنیاد رکھی اور ایک طویل اور مشکل جدوجہد کے نتیجہ میں تحریکِ انصاف کے منتخب کردہ وزیرِاعظم اور پارٹی کے سربراہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد اسمبلی میں کامیاب کروائی۔ جس کے نتیجہ میں ملک میں مشترکہ سیاسی جماعت پی ڈی ایم کی حکومت بن گئی۔ نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے سابقہ وزیرِاعلیٰ شہباز شریف ملک کے 23ویں وزیرِاعظم بن گئے۔

بلاول بھٹو نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ملک کے وزیرِ خارجہ کے طور پر کیا ہے۔ اس وقت یہ عہدہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا اس وقت دو گروہوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک طرف یورپی یونین، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک ہیں جب کہ دوسری جانب ہمارے پڑوسی ممالک چین اور روس  ہیں۔ پاکستان کا کردار اس وقت اپنے جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کی مجبوری ہے کہ وہ دونوں گروہوں میں سے کسی کے بھی مخالفت میں کھڑا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی غیرجانبداری کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات پاکستان کی معاشی صورتِ حال اور بھارت سے تنازعات ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک سے تجارت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے، جب کہ چین کی مخالفت کے بارے میں پاکستان سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس وقت وزیرِخارجہ کی پوزیشن نہایت اہم ہے اور بلاول بھٹو زرداری کا یہ پہلا تجربہ ہے کہ وہ انتی اہم ذمہ داری کو نبھانے جا رہے ہیں۔ بلاشبہ ان میں صلاحیتیں موجود ہیں اور وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں نہایت عمدہ طریقہ سے پوری کر سکتے ہیں۔ وہ بھٹو اور زرداری دونوں خاندانوں کے نمائندے کے طور پر موجود ہیں اور اپنے کردار کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ اس وقت ان کو صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سوچنا ہوگا۔ کیوں کہ ان کے نانا قائداعظم محمد علی جناح کا انتخاب تھے اور ذوالفقار علی بھٹو نے کبھی قائداعظم کو شرمندہ نہیں کیا۔ انھوں نے پھانسی کی سزا قبول کی، لیکن کبھی عدلیہ اور پاکستان کی مخالفت نہیں کی۔ انھوں نے اپنے ملک میں پھانسی چڑھ جانا پسند کیا لیکن اپنے ملک سے فرار ہونا پسند نہیں کیا۔ بلاول نے نانا نے ملک کو ایک ایسا مکمل اور جامع آئین دیا جو کہ آج تک نافذالعمل ہے اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس آئین پر یقین رکھتی ہیں۔ بلاول کی والدہ نے بھی ملک میں شہید ہونا پسند کیا۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، پھر بھی وہ جمہوریت کی سر بلندی اور آمریت کی شکست کے لیے پاکستان آئیں۔ ان کی شہادت کے بعد بلاول کے والد آصف علی زرداری نے ملک کو مزید بکھرنے اور ٹوٹنے سے بچانے کے لیے "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگایا۔ بلاول کو ان تمام باتوں کی عزت رکھنی ہے اور ملک کو مزید نقصانات سے بچانا ہے۔ وہ ملک کے مستقبل کے وزیرِاعظم بھی ہو سکتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کو اپنی سوج اور ویژن کو بہت وسیع کرنا ہوگا۔ اندورنی سیاست اپنی جگہ، لیکن اب ان کو پورے پاکستان کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ اس وقت پاکستان کو ایک ایسے لیڈر کی تلاش ہے جو بین القوامی طور پر پاکستان کی نمائندگی کر سکے اور جس کا ماضی بے داغ ہو۔ بلاول وہ واحد لیڈر کے طور پر سامنے آسکتے ہیں، جن میں یہ دونوں صلاحیتیں موجود ہیں۔ وہ اس وقت جوان ہیں اور ایک لمبے عرضہ تک سیاست کرنے کے اہل ہیں۔ ان کو اپنی اہلیت ثابت کرنی ہوگی اور ان کو موجودہ پوزیشن ان کے لیے ایک ٹیسٹ کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ اس وقت سیاسی مخالفت سے بالاتر ہو کر اگر صرف پاکستان کے بارے میں سوچا جائے تو بلاول پاکستان کے لیے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کر سکتے ہیں۔

 

 

محمد ندیم جمیل

28 اپریل، 2022    

 

 

جمعرات، 21 اپریل، 2022

 

ایم کیو ایم کی تشکیلِ نو

ایم کیو ایم نے اپنی وفاداری تبدیل کرنے کی پہلی قسط وصول کر لی۔ وفاقی حکومت میں دو وزارتیں ایم کیو ایم کو دی گئیں ہیں۔ سید امین الحق انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن اور فیصل علی سبزواری کو بحری امور کے وزراء کے طور پر حلف لے چکے ہیں۔ ابتداء میں ایم کیو ایم نے وزارتیں لینے سے منع کیا تھا۔ جب سے ایم کیو ایم پاکستان کے بہادرآباد گروپ نے اپنی وفاداریاں ازراں قیمت میں فروخت کی ہیں، ہر جگہ اور ہر میٹنگ میں اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔ وہ یہ جان چکے ہیں کہ وہ ایک بہت بڑی غلطی کر چکے ہیں۔ خالد مقبول صدیقی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ متحدہ کو الیکشن کی تیاری کی ضرورت نہیں۔ وہ واقعی درست کہہ رہے ہیں۔ ان کے پاس کچھ ایسا رہا نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ کراچی کی عوام کا سامنا کریں گے۔ کراچی کی عوام کے حساب سے یہ دو دفعہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پہلے انھوں نے اپنے لیڈر سے غداری کی اور اب کراچی کے عوام سے غداری کی۔ اب یہ کراچی کی جتنی بھی خدمت کرلیں، یہ کراچی والوں کا دل نہیں جیت سکتے۔ کیوں کہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اس بنیاد پر کراچی کی عوام سے ان کو ووٹ ملیں گے تو اس معاملے میں مصطفیٰ کمال کے مقابلے کا کوئی نہیں۔ لیکن ہوا اس کے الٹ ہے۔ مصطفیٰ کمال کو کراچی کی عوام نے یکسر مسترد کر دیا۔ وہ خود اپنے مقامی حلقے سے بہت بری طرح شکست کھا چکے ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ کراچی پر پاکستان کے کسی بھی حصہ کی سیاست کا کوئی اثر نہیں ہوتا، لیکن کراچی کی سیاست کا اثر پورے پاکستان کی سیاست پر پڑتا ہے۔ کراچی والے سیلف میڈ لوگ ہیں۔ ان کو بیرونی امداد اور خدمات کی ضرورت نہیں۔ یہ اپنے مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر کراچی سے کمایا گیا پیسہ کراچی پر لگایا جائے تو کراچی کو وفاق سے کسی مدد کی ضرورت نہیں۔

بات ہو رہی تھی ایم کیو ایم پاکستان کے سیاسی زوال کی۔ ایم کیوایم پاکستان کے رہنماء یہ بات جانتے تھے کہ وہ اپنی بہت کم قیمت وصول کر رہے ہیں۔ لیکن مجبوری یہ ہے کہ جب ضرورت ہو تو اپنی قیمت نہیں ضرورت دیکھی جاتی ہے۔ عمران خان سے ان کو یہ بھی نہیں مل رہا تھا جو کہ موجودہ حکومت سے مل سکتا ہے۔ لیکن جو بھی ملے گا، ان کو ذاتی طور پر ملے گا۔ کراچی کے عوام کو اس سے کچھ ملتا نظر نہیں آ رہا۔ یہ اب نہ تو حکومت سے نکل سکتے ہیں اور نہ ہی موجودہ حکومت کو بلیک میل کر سکتے ہیں۔ وفاق سے ان کو جو کچھ ملنا تھا، وہ مل گیا۔ اب سندھ حکومت کی باری ہے۔ سندھ حکومت ان کو دستاویز میں تو شائد کچھ دے دے لیکن حقیقت میں ان کو کچھ نہیں دینے والی۔ پیپلز پارٹی کے پاس اس وقت بہترین وقت ہے کہ وہ لسانی تفریق کو مٹآ کر کراچی کے عوام کا دل جیت سکتی ہے۔ پہلے بھی پی پی پی کے رہنماء ہر تقریر اور موقع پر ایم کیوایم کو ایک دہشت گرد اور لسانی جماعت ثابت کرتی رہی ہے۔ اب بھی جو کچھ کراچی والوں کو دیا جائے گا، اس پر پیپلز پارٹی کی مہر ہوگی۔ یہ بتایا جائے گا کہ یہ سب کچھ پیپلز پارٹی اور بلاول ذرداری دے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم لاکھ چلائے، کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ وفاق اور پاکستان مسلم لیگ نواز بیچ میں اپنی ٹانگ نہیں اڑائے گی۔ اس کو بھی اگلے الیکشن میں جانا ہے، جہاں بہرحال پیپلز پارٹی اس کی حریف جماعت ہوگی۔ وہ خود چاہے گی کہ کراچی کی عوام کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان کنفیوژ کیا جائے۔ کراچی میں اس وقت تمام جماعتوں کے لیے سب سے بڑے سیاسی خطرے کے طور پر پاکستان تحریکِ انصاف سامنے آرہی ہے۔ اس بات کو بہت سنجیدگی سے لیا جائے کہ اس شہر میں ایم کیو ایم مردہ باد کے نعرے لگوا کر اور اس کا پرچم جلوا کر پی ٹی آئی نے اپنی موجودگی ثابت کر دی ہے۔ یہ کام آج تک پی پی پی بھی نہیں کروا سکی تھی۔

اب الیکشن سات مہنیوں بعد ہوں یا چودہ مہینوں بعد، ایم کیو ایم کو ووٹ مانگنے اس ہی عوام کے سامنے جانا پڑے گا، جس کا سامنا کرنے کی ان میں نہ تو ہمت رہی ہے اور نہ ہی طاقت رہی ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے پورے مستقبل کو دو وزارتوں کے عیوض بیچ دیا۔ اس بات کا ادراک ایم کیو ایم پاکستان کے تمام رہنماؤں کو ہے، کیوں کہ اتنے سخت عوامی ردِعمل کی توقع کسی کو بھی نہیں۔ میں پھر کہوں کہ اس میں بہت بڑا کردار تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیا ونگ کا ہے۔ جس کے مقابلے کا سوشل میڈیا ونگ کسی سیاسی جماعت کے پاس نہیں۔

ایم کیوایم پاکستان کے تمام سیاستدانوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اب کراچی کی عوام کو نعروں سے نہیں بہلایا جا سکتا۔ ویسے بھی جن نقاط پر ایم کیوایم پاکستان نے اپنی وفاداریاں تبدیل کی ہیں، ان میں سے عوام کے فائدے کا کوئی نہیں۔ ڈومیسائیل کا مسئلہ نہ تو پہلے کبھی حل ہوا نہ اب ہو سکتا ہے۔ یہ صرف سندھ حکومت کے ہاتھوں میں نہیں رہا۔ کیوں کہ اب کراچی میں ایک نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے، جو کراچی میں ہی پیدا ہوئی ہے اور کراچی میں ہی تعلیم حاصل کر کے کراچی والی ہو چکی ہے۔ ان کا کیا کیا جائے گا؟ دوسری بات کہ جعلی ڈومیسائل مسترد کرنا انتا آسان نہیں اور نہ ہی اس سلسلے کو روکنا۔ گریٹ ایک سے پندرہ تک کی تمام سرکاری ملازمتیں مقامی افراد کا حق ہوتی ہیں۔ کیا سندھ حکومت ایسا کر سکتی ہے کہ کراچی میں پرائمری اسکولوں کے تمام اساتذہ، تعلیمی اداروں اور دوسرے سرکاری اداروں کے تمام کلرکنان اور تمام نچلے درجے کہ ملازمین کو ملازمت سے فارغ کردے۔ ایسا ممکن ہی نہیں۔ ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ آئندہ کے لیے کوئی طریقہ کار وضع کیا جائے۔ لیکن مستقبل قریب میں اس کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اگر کراچی کا ناظم یا مئیر ایم کیو ایم کا بنا بھی دیا جائے تو وہ وسیم اختر سے زیادہ لاچار اور بے بس ہوگا۔ اس کا کوئی فائدہ کراچی کے عوام کو حاصل نہیں ہوگا۔ ہر موقع پر وہ عوام کے سامنے اپنی بے بسی کا رونا روئے گا۔ کراچی کی عوام کو جب حقوق پی پی پی سے ہی مانگنے ہیں تو وہ ایم کیو ایم کو ووٹ کیوں دیں گے؟ اگر سندھ کا گورنر ایم کیو ایم کا ہو گا تو اس کا بھی بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا کیوں کہ ڈاکٹر عشرت العباد سندھ کے سب سے طویل عرصہ تک گورنر رہنے کا اعزاز اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس کا ان کے دور میں کراچی کی عوام کو کیا فائدہ ملا تھا؟ کچھ بھی نہیں۔ اب بھی یہی ہوگا۔ ایم کیو ایم پاکستان کو اگر کسی سے کچھ مل سکتا ہے تو وہ کراچی کی عوام سے مل سکتا ہے۔ کراچی کی عوام نے ہی ان کو اتنی بلندی تک پہنچایا ہے اور ان لوگوں نے کراچی کو سوائے خوف کے کچھ نہیں دیا۔

میں نے جب سے آنکھ کھولی، ایم کیو ایم کو دیکھا۔ بہت کم عمری میں الطاف حسین کو تقریر کرتے دیکھا۔ جنرل ضیاء کے دور میں کراچی میں کرفیو کے دوران بجلی کے کھمبے بجانے کے عمل کا چشم دید گواہ رہا ہوں۔ اسی شہر میں خواتین کو جنازے اُٹھاتے دیکھا ہے۔ یہ سب کچھ پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کے دورِ حکومت میں ہوا تھا۔ اس بات کو کراچی کا کوئی بھی وہ گھر نہیں بھول سکتا، جس گھر سے تمام بھائیوں کے جنازے ایک ساتھ نکلے تھے۔ موجودہ ایم کیو ایم پاکستان ان تمام افراد سے غداری کا مرتکب ہو چکی ہے۔

اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی ہی پارٹی کے اور اپنی قوم کے افراد پر الزام لگا کر وہ کراچی کی عوام کا دل جیت سکتے ہیں تو ان کو خوابِ خرگوش سے جاگ جانا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج کراچی پر پی ایس پی حکومت کر رہی ہوتی۔ ایم کیو ایم پاکستان آج ختم نہیں ہوئی، وہ اس دن ختم ہو گئی تھی، جس دن فاروق ستار کو گریبان سے پکڑ کر موبائل میں بیٹھایا گیا تھا اور ایک شخص نے آواز بلند نہیں کی۔ یہ ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ یہ ایک تسلسل سے کی گئی غلطیوں کا نتیجہ تھا۔ جس کا انجام یہ ہوا۔ شاعر نے بہت خوب کہا ہے کہ

وقت کرتا ہے پروش برسوں                        حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ایم کیو ایم غلام ارباب رحیم کے دور میں بہت کچھ حاصل کر سکتی تھی، لیکن پانچ سالہ دور میں محض اپنے ذاتی فوائد کو دیکھا گیا۔ نہ تو کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے پر بات کی گئی، نہ بنگلہ دیش سے بہاریوں کو بلانے کی بات کی گئی اور نہ ہی علیحدٰہ صوبے کی بات کی گئی۔ حالانکہ یہ وہ تمام بنیادی نقاط تھے، جن پر ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

اگر ایم کیو ایم پاکستان کو دوبارہ عروج حاصل کرنا ہے تو ان کو دوبارہ زمین پر آنا ہوگا۔ ابتدائی دور میں ایم کیو ایم ہر علاقے میں سیکٹر کی بنیاد پر کارنر میٹنگز کا انعقاد کرتی تھی۔ وہاں علاقے کے بزرگوں کو مشورے کے لیے بلوایا جاتا تھا۔ ان سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ ان کی شکایات سُنی جاتی تھیں۔ بعض اوقات خود ایم کیو ایم کے لڑکوں کے خلاف شکایات ہوتی تھیں، اسی وقت ان لڑکوں کی سرزنش کی جاتی تھی۔ علاقے کے کسی لڑکے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ علاقے کے کسی بزرگ سے بدتمیزی سے بات کرے یا ان پر رعب ڈال سکے۔ اس دور کو واپس لانا ہوگا۔ ایم کیوایم کے ذمہ داروں ایک ایک گھر جانا ہوگا۔ ایک ایک فرد سے اپنے کیے گئے اعمال کی غیر مشروط معافی مانگنی ہوگی۔ بغیر کسی صفائی دیے اور بغیر کسی دوسرے پر الزام لگائے۔ ہاتھ پکڑ کر گلے لگا کر کارنر میٹنگ میں بلانا ہوگا۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے معافی مانگنی ہوگی۔ ان سے مسائل کا حل لینا ہوگا۔ ان کے دکھوں پر مرہم رکھنا ہوگا۔ ان کو فیصلوں میں شامل کرنا ہوگا۔ کل بھی کراچی اردو اسپیکنگ والوں کا تھا اور آج بھی ہے۔ بس ان اردو اسپیکنگ والوں کو واپس ایم کیو ایم میں لانا ہوگا۔ کراچی کی عوام متحدہ قومی مومنٹ سے زیادہ مہاجر قومی مومنٹ سے ساتھ ہوں گی۔ یہی اصل پہچان ہے اور اس پہچان کو واپس لانا ہوگا۔ یہ بات تو طے ہے کہ ایم کیو ایم کچھ بھی کر لے، پنجاب یا کے پی کے میں سیٹیں نہیں جیت سکتی تو پھر ایسی کوشش کرنے میں توانائی اور اور رقم کا صیاں بیکار ہوگا۔ یہ سندھ تک ہی محدود رہے اور اسی پر فوکس کرے۔ صاف ستھرے اور باکردار افراد کو سامنے لانا ہوگا۔ جن پر علاقے کے افراد کو بھروسہ ہو۔ تعلیم یافتہ افراد کو ترجیع دینا ہوگا۔ غنڈہ گردی، بدمعاشی، داداگیری اور آوارہ گردی سے اجتناب برتنا ہوگا۔ اپنے اندرونی نظام کو درست کرنا ہوگا۔ اندرونی اختلافات کو بھلانا ہوگا۔    عوام کو خاص طور پر علاقے کے عمر رسیدہ افراد کو اولیت دینی ہوگی۔ بالکل ابتداء سے ابتداء کرنی ہوگی۔ اس میں بہت دشواری کا سامنا کرنا ہوگا۔ کیوں کہ نئی زمین پر عمارت کھڑی کرنا نہایت آسان ہوتا ہے، جب کہ کسی خراب عمارت کو گرا کر نئی عمارت بنانا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ یہی کچھ ایم کیو ایم کو کرنا ہے۔ نئی عمارت کی تعمیر کرنی ہے۔

اس بات کو ذہن میں بیٹھانا ہوگا کہ الطاف حسین کا گالی دے کر اور برا بھلا بول کر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس کا صرف نقصان ہی ہوگا۔ اس سے مکمل طور پر اجتناب برتنا ہوگا۔ سفر مشکل اور طویل لگتا ہے لیکن اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ کیوں کہ اگر ایک دفعہ تحریکِ انصاف کراچی پر قابص ہوگیا تو ایم کیو ایم کا واپسی کا سفر مزید دشوار ہو جائے گا۔

محمد ندیم جمیل –

21 اپریل 2022

اتوار، 17 اپریل، 2022

 

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال


آخرکار مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے پاکستان کے تئیسویں وزیرِ اعظم کا حلف اُٹھا کر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی وزیرِ اعظم کے اپنے دور کو پورا نہ ہونے دینے کی روایت قائم رکھی۔  اس حلف برداری سے پہلے ہر لمحہ یہ سوچا جا رہا تھا کہ شائد ایسا ہونا ممکن نہ ہو۔ لیکن عدلیہ، بیوروکریسی، ملک کو چلانے والے حقیقی لوگ اور سیاست دانوں کی مکمل ہم آہنگی سے یہ کام پایہِ تکمیل تک پہنچا۔ دوسری جانب سابق وزیرِاعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نیازی نے حکومت کو نہ چلنے دینے کا عندیہ دیتے ہوئے اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستیں سنبھالنے کے بجائے اسمبلی سے استفے دے کر عوام میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان کی اپنی جماعت اور اتحادی جماعتوں میں سے کچھ نے ان کے اس فیصلے سے انحراف کرتے ہوئے استیفے نہ دینے کی بات کی ہے۔ لیکن پاکستان تحریکِ انصاف نے 125 استیفے جمع کروادئے، جن میں سے 123 استیفے منظور بھی کر لیے گئے ہیں۔ اگر عمران خان نے اپنی جماعت کے تمام قومی اسمبلی کے ممبران کو استیفے دینے پر مجبور کیا تو آئین کی اٹھارویں کے مطابق ان کی جماعت کے ممبران کے پاس استیفے دینے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہ جائے گا۔ تحریکِ انصاف کی جمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں میں سے ایک عوامی لیگ ہے جس کے پاس صرف ایک سیٹ ہے جو کہ شیخ رشید کی ہے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ قائداعظم ہے جو کہ استیفے نہیں دے گی۔ گریٹ ڈیموکریٹک الائینس نے بھی استیفے نہ دیتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فئ الحال صرف تحریکِ انصاف ہی استیفوں کی جانب جائے گی۔

پنجاب میں حمزہ شہباز کے وزیرِ اعلیٰ بن جانے کے بعد تحریکِ انصاف پنجاب میں کیا حکمتِ عملی اپنائے گی، یہ دیکھنا باقی ہے۔ جس طرح پنجاب کے وزیرِآعلیٰ کے انتخاب سے بائی کاٹ کرنے کا تو یہی مطلب نکلتا ہے کہ پنجاب میں بھی تحریکِ انصاف استیفوں کی طرف جائے گی۔ اگر تحریکِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ قائداعظم، اور اس کے دوسری حلیف جماعتیں پنجاب اسمبلی سے استیفیے دے دیتے ہیں تو موجودہ وزیرِاعلیٰ حمزہ شہباز اکثریت کھو دیں گے، کیوں کہ اس صورت میں ان کو ووٹ دینے والے تحریکِ انصاف کے ممبران یا تو نااہل قرار پائیں گے یا استیفے دیں گے۔ دونوں صورتوں میں ان کے ووٹ اسمبلی سے باہر ہوں گے اور حمزہ شہباز کے پاس 186 ووٹ نہیں رہیں گے۔ پنجاب میں پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس سب سے بڑی اکثریت 183 سیٹیں موجود ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے 10 ممبران ہیں۔ اس طرح اس وقت ان کے پاس قانونی طور پر 193 نشستیں موجود ہیں۔ جب کہ دوسری طرف مسلم لیگ نواز کے پاس دوسری بڑی اکثریت 165 نشستیں موجود ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 7 اور 5 آزاد ارکان ہیں۔ ساتھ ہی ایک نشست پاکستان راہِ حق کے پاس ہے۔ اگر یہ سب ایک ساتھ بھی کھڑے ہوں تو قانونی طور پر ان کے پاس 178 نشستیں ہیں جو کہ سادہ اکثریت سے بہت کم ہیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستان مسلم لیگ قائداعظم تو حمزہ شہباز کو ووٹ نہیں دے گی۔ اس صورت میں اسپیکر راجہ پرویز اشرف اسمبلی کس طرح چلائیں گے۔ کیوں کہ سادہ اکثریت کے بغیر اسمبلی چل ہی نہیں سکتی۔ اس بات کو بھی ذہن نشین رکھا جائے کہ مرکز میں موجودہ حکومت کو محض سادہ اکثریت ہی حاصل ہے۔ شہباز شریف کو 174 ووٹ ملے ہیں جو کہ سادہ اکثریت سے صرف 3 ووٹ زیادہ ہیں۔ صدر کے انتخاب کے لیے کم سے کم 270 ووٹ کی صورت ہوگی، جو کہ موجوہ صورتِ حال میں مشکل نظر آ رہا ہے، کیوں کہ دو صوبوں میں پاکستان تحریکِ انصاف کو اکثریت حاصل ہے اور پنجاب میں بھی بازی تحریکِ انصاف کے پاس ہے۔ ویسے تو اٹھاوریں ترمیم کے بعد صدر کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن پھر بھی عمران خان کے منتخب کردہ صدر کے ساتھ کام کرنا شہباز شریف کے لیے نہایت مشکل ہوگا۔

سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے گورنر حضرات نے اپنے عہدوں سے استیفے دے دیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ میاں شہباز شریف عمران خان کے مقرر کردہ گورنروں کے ساتھ کام تو کرنے والے تھے ہی نہیں، تو ان لوگوں کو تو ویسے بھی رخصت ہونا ہی تھا۔ بس تھوڑا پہلے رخصت ہوگئے۔ 

الیکشن کمیشن کے سربراہ اعلیٰ عدلیہ میں حلفیہ یہ بیان دے چکے ہیں کہ سات مہینوں سے پہلے عام انتخابات کا انعقات ناممکن ہے۔ اس صورت میں کیا یہ اسمبلیاں بغیر اپوزیشن کے کام کریں گی یا اس اسمبلی کو توڑ کر اکتوبر تک نگراں حکومت یہ ملک چلائے گی۔

جس طرح تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی سے استیفے دیے ہیں، اسی طرح اگر وہ کے پی کے، سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے استیفے دے دیتے ہیں، ساتھ ہی ان کی حلیف جماعتیں بھی استیفوں کی طرف جاتی ہیں تو ایک بہت بڑا آئینی بحران کھڑا ہو جائے گا۔ کیوں کہ اکتوبر سے پہلے نئی حلقہ بندیوں کے ساتھ عام انتخابات ناممکن ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان الیکشن کمیشن کیا اقدامات اُٹھاتی ہے، یہ بہت اہم ہے۔ لیکن عام انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہوجائے گا۔ ساتھ ہی یہ ایک بہت بڑا معاشی بحران کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ کیوں کہ اگر نگراں حکومت بنتی ہے تو اس کے پاس مہنگائی میں اضافے کے علاوہ کوئی اور حل نہیں رہ جائے گا۔ کیوں کہ نگراں حکومت سے نہ تو آئی ایم ایف کوئی مذاکرات کرے گی اور نہ ہی کوئی اور ملک قرض یا امداد دے گا۔ اس صورت میں ملک کو دیوالیہ ہونے کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں بہت زیادہ تنگ ہے اور اب مزید مہنگائی برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اگر اس صورت میں عمران خان کی ٹؤن اور لہجہ یہی رہا جو ابھی ہے تو ملک میں خانہ جنگی کی صورتِ حال بھی ممکن ہے۔ اس صورت میں فوج اور عدلیہ بھی مداخلت نہیں کرے گی، کیوں کہ عمران خان اپنی تقاریر میں اور ان کی میڈیا ٹیم سوشل میڈیا پر فوج اور عدلیہ کو متنازہ بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ اور وہ اس میں کسی طور پر کامیاب بھی رہے ہیں۔ اس وقت پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد اعلیٰ عدلیہ اور فوج کو برا سمجھ رہی ہے، جو کہ ایک نہایت خطرناک صورتِ حال ہے۔  

جس طرح عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کی حکومت آئی یا بنائی گئی، اس نے بہت سارے سوالات پیدا کیے ہیں۔ کیا عمران خان پاکستان کے لیے اتنا خطرناک ثابت ہو رہا تھا کہ اس کا اس طرح جانا انتا ضروری تھا؟

اگر شخصی لحاظ سے دیکھا جائے تو شہباز شریف اور نواز شریف میں بہت زیادہ فرق ہے۔ نواز شریف خود پسند اور تعریف پسند شخص ہیں۔ نواز شریف اپنے کام پر اس طرح توجہ نہیں دیتے جس طرح شہباز شریف دیتے ہیں۔ شہباز شریف نوازشریف کے دورِ حکومت میں بھی ان کا بہترین نعم البدل ہو سکتے تھے، مگر افسوس کہ وہ قومی اسمبلی میں نہیں تھے، بلکہ صوبائی حکومت میں تھے۔ جس طرح شہباز شریف نے اپنے کام پر فوکس کرکے پنجاب خاص طور پر لاہور کو ترقی دی، وہ ایک اچھی تنظیم کاری کی بہترین مثال ہے۔ بحثیتِ مجموعی سیاسی اور عسکری حلقوں میں شہباز کو نواز سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ اگر نواز شریف شہباز شریف کو آزادی سے کام کرنے دیں اور ان کے کاموں میں رکاوٹ نہ ڈالیں تو شہباز ایک اچھی وزیرِ اعظم ثابت ہو سکتے ہیں۔ انھیں سب سے مل کر چلنا آتا ہے۔

اس وقت نئی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی اور درست سمت میں سفر ہے، کیوں کہ مہنگائی میں کمی اور معاشی مسائل کو حل کرنا اس وقت نہایت مشکل نظر آ رہا ہے۔ ذرِ مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہیں اور پاکستان کو ابھی بھاری بل چکانے ہیں۔ عام عوام مہنگائی کے ہاتھوں نہایت تنگ ہے اور مہنگائی میں کمی واحد طریقہ ہے، جس کے ذریعہ پی ڈی ایم اپنا وقار عوام میں قائم کر سکتی ہے۔

کابینہ کی تشکیل کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ بہت کم لوگ اس بات سے متفق ہوں گے کہ اس معاملے میں بلاول اور ذرداری کے خیالات یکسر مختلف ہیں۔ ذرداری اس ڈوبتی کشتی میں سفر کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ ایک جہاںدیدہ سیاست دان ہیں اور وہ کبھی بھی اس ڈوبتی کشتی کا سفر نہیں کرنا چاہیں گے۔ لیکن بلاول اپنے نانا کی طرح وزیرِ خارجہ بن کر اپنے سیاسی مستقبل کی ابتداء کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بہت خطرناک فیصلہ ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اس وقت اس پوزیشن پر ایک بہت ماہر اور تجربہ کار ڈیموکریٹ کی ضرورت ہے، جو تمام معاملات کو بہت احسن طریقہ سے نبٹا سکے۔

چاروں گورنر نئے لگائے جائیں گے۔ بلوچستان میں تو بلوچستان عوامی پارٹی کا گورنر لگا کر پی ڈی ایم بی اے پی کا احسان اُتار سکتی ہے۔

سندھ کی صورتِ حال مکمل طور پر پیپلز پارٹی کے حق میں ہے۔ موجودہ ایم کیو ایم اپنا مقام مکمل طور پر کھو چکی ہے۔ کیوں کہ ایم کیو ایم کے اس فیصلے کے خلاف کراچی کے عوام میں ان کے لیے ایک غصہ پایا جاتا ہے۔ ان کو مبینہ طور پر غدار کا لقب دے دیا گیا ہے۔ خود فاروق ستار نے بھی پریس کانفرنس کر کے ان تمام کاروائیوں سے خود کو لاتعلق ظاہر کیا ہے۔ شہباز شریف سے ملاقات کے دوران بھی وہ موجود نہیں تھے۔ یہ ایم کیو ایم کی تقسیم در تقسیم ہونے کی ایک اور نشانی ہے۔ کراچی کے عوام کو ایم کیو ایم کے متبادل کسی قیادت کی تلاش ہے۔ مصطفیٰ کمال نے اپنی پوری کوشش کی کہ وہ اپنے سیاسی قد کو اُونچا کریں، اس کے لیے انھوں کے عمران خان کا ساتھ دینے کی بات بھی کی۔ لیکن بات بنی نہیں۔ ان کے فیلوور کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی دو بنیادی وجہ ہے۔ پہلی کہ وہ الطاف حسین کے غدار ہیں۔ دوسرے وہ واحد لیڈر ہیں جو یہ بات تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کے دور میں ایم کیو ایم جرائم میں شامل رہی اور الطاف حیسن بھارت اور را سے ڈالرز لے رہے تھے۔ اس کے باوجود وہ ایم کیو ایم سے منسلک رہے، جب تک ان کے پاس کراچی کی مئیرشپ تھی۔ اس طرح وہ خود کو پاکستان کا غدار بھی ثابت کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے کراچی کی عوام ان پر بھروسہ نہیں کر رہی۔ دوسرے یہ بھی کہ ان کے ساتھ ایم کیو ایم کے وہ لوگ شامل ہیں جن کا ماضی بہت داغدار ہے۔ مصطفیٰ کمال کسی بھی طور پر ایم کیو ایم کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ اس وقت کراچی کا سیاسی میدان بالکل خالی ہے اور نئے قیادت کی تلاش میں ہے۔ اب وہ بلاول ہوں گے یا عمران خان، اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ جس نے بھی کراچی کے بنیادی مسائل (خاص طور پر اردو بولنے والوں کو دوسروں پر فوقیت دینا جیسا بنیادی مسئلہ بھی شامل ہے) حل کیے، وہ کراچی کے ووٹ لے سکتا ہے۔ کراچی کی عوام کو پورے پاکستان کے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور نہ ہی وہ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ کراچی کا اپنا ایک کلچر اور ووٹ بینک ہے اور ان کی اپنی ایک سوچ ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح سے الطاف حسین تک، ان کا مزاج کوئی نہیں بدل سکا۔ اب بھی وہی ہےکہ سب سے پہلے پاکستان۔ جو پاکستان کا غدار ہے، اس کو کراچی سے کچھ نہیں ملنے والا۔ کیوں کہ یہاں پاکستان بنانے والے اور پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے والوں کی اولادیں رہتی ہیں۔ جن کی خون میں صرف پاکستان کی وفاداری دوڑ رہی ہے۔

عمران خان کے تین کامیاب جلسوں نے ان کو دوبارہ سیاسی زندگی دی ہے۔ اس میں ایک بہت بڑا ہاتھ ان کی میڈیا ٹیم کا ہے۔ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے پاس اتنا طاقتور اور معیاری میڈیا ٹیم کا نہ ہونا عمران خان کو نہایت فائدہ دے رہا ہے۔ 27 مارچ کے جلسے نے عمران خان کو یہ راستہ دیکھایا کہ وہ اسمبلی چھوڑ کر عوام میں جائیں اور اپنی پوری طاقت نئے الیکشن کروانے پر لگائیں۔ اس وقت عوام کی ایک بہت بڑی تعداد عمران خان کے اثر میں ہے اور اہم یہ ہے کہ ان میں ایک بہت بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جو کہ اپنے ووٹ کا پہلی دفعہ استعمال کریں گے۔

عمران خان کے پاس دو ہی اہم نقاط ہیں جن کے ذریعہ وہ عوام کو اپنی طرف راغب کر رہے ہیں، ایک بین القوامی سازش ہے جو کہ بقول ان کے حکومت سے جانے کی وجہ بنا ہے۔ وہ عوام کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ ان کو پاکستان اور اسلام سے محبت کی سزا میں عالمی سازش کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس بات کو وہ اتنی زور اور پُریقین انداز میں کہہ رہے ہیں کہ مخالفین کے ہزارہا ثبوت اور گواہ پیش کرنے پر بھی عوام ان کی بات پر یقین کر رہے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان ان کو غیرمشروط سپورٹ کر رہے ہیں۔ میرے ایک معزز استاد کے بقول عمران خان کو پورے پاکستان میں ایسی ہی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے، جیسی کسی دور میں الطاف حسین کو سندھ کے شہری علاقوں میں رہی تھی۔ یہ بات درست بھی نظر آ رہی ہے، کیوں کہ کراچی میں کھڑے ہو کر ایم کیو ایم مردہ باد کا نعرہ لگوا دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی کی عوام بھی الطاف حیسن کو بھول کر عمران خان کو سپورٹ کرنے کا سوچ رہی ہے۔ حالانکہ عمران خان نے اپنے دورِ حکومت میں سندھ کے شہری علاقوں کے لیے کچھ نہیں کیا اور اگر یہ کہا جائے کہ ان کے دور میں کراچی کو زیادہ نقصان پہنچا تو یہ بے جا نہ ہو گا۔

دوسرا نقطہ موجودہ حکومت کے ماضی کے کرپشن کے کیس ہیں، ، جو پی ڈی ایم میں موجود جماعتوں نے اپنے دورِ حکومت میں ایک دوسرے پر لگائے تھے اور  ایک دوسرے کے خلاف دیے گئے بیانات ہیں جو وہ اپنے جلسوں میں اور تقاریر اور بیانات میں ایک دوسرے کے خلاف دیتے تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کے پاس اپنی جماعت کے نقطہ نظر بیان کرنے کے لیے مناسب افراد کی نہایت کمی ہے۔ اس کا ایک ثبوت ایک ٹاک شو میں جاوید لطیف کا ایک بیان ہے، جس میں نواز شریف کے وطن واپسی کے جواب میں انھوں نے کہا کہ نواز شریف عید کے فورا بعد پاکستان آ جائیں گے، کیوں کہ لندن کے ڈاکٹروں کے مطابق اب پاکستان کے ڈاکٹر اور ہسپتال اتنے قابل ہو چکے ہیں کہ وہ نواز شریف کا بہتر علاج کر سکتے ہیں۔ یہ بیان خود اپنا مذاق اُڑوانے والا ہے۔ یعنی عمران خان کے دور میں ہسپتال اتنے بہتر ہو چکے ہیں کہ وہ نواز شریف کا علاج کر سکتے ہیں جو کہ مسلم لیگ نواز کے دور میں نہیں تھے۔ ساتھ ہی جب خواجہ آصف نے امریکہ کے حق میں بیان دیا تو ان کے بیان کو درست ثابت کرنے کے لیے شہباز شریف نے پورے پاکستان کو بھکاری بنا دیا ہے۔ نواز لیگ کی اس کمزوری کا فائدہ عمران خان بہت بہتر انداز میں اُٹھا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس معاملے میں قدرے بہتر ہے۔ اور اس کے افراد منہ کھولنے اور بات کرنے سے پہلے سوچتے ہیں۔ پیپلز پارٹی پر زیادہ کرپشن کے کیس ہیں، لیکن وہ اتنے بدنام نہیں جتنے نواز لیگ والے ہیں۔ اس کی وجہ نواز لیگ کی جانب سے دیے جانے والے بیانات ہیں، جن کا زیادہ نقصان خود ان کو ہوتا ہے۔

میری ناقص رائے میں عمران خان اگر واقعی ملک کے ہمدرد ہوتے تو وہ اسمبلی چھوڑ کر الیکشن کی طرف نہیں جاتے، کیوں کہ وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں فی الوقت جنرل الیکشن ممکن ہی نہیں۔ اور نہ ہی سیاسی بحران کسی بھی طرح پاکستان کے حق میں ہے۔ معاشی طور پر یہ سیاسی بحران معاشی بحران کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اگر وہ دوبارہ حکومت میں آ بھی جاتے ہیں تو بھی ان کے پاس معاشی بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ موجود نہیں، سوائے اس کے کہ وہ مہنگائی میں اضافہ کرکے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شرائط کو پورا کرتے رہیں۔ ساتھ ہی جس قسم کی زبان اور لہجہ وہ پاکستان کے معزز اداروں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، وہ آنے والے ادوار میں پاکستانی سیاست کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوگی، کیوں کہ اُن کو سننے اور اُن کی ماننے والوں میں ان نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے جن کو اگلی کئی دہائیوں تک اس ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے اور ملک چلانا ہے۔ جس قسم کے سیاسی کلچر کو وہ فروغ دے رہے ہیں، اس کے برے نتائج پاکستان کو بھگتنے ہوں گے۔

ایک بات بہت غور طلب ہے کہ ہر کچھ دنوں بعد کسی نہ کسی کو یہ بات کیوں کہنی پڑتی ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہے۔ وہ یہ بات کس کو باور کروا رہے ہوتے ہیں؟ آخر اس کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ کسی بھی مہذب ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ فوج بہرحال حکومت کے زیرِ کنٹرول ہوتی ہے، لیکن یہ بیان یہ تاثر دینے کی کوشش ہوتی ہے کہ جیسے فوج اور حکومت پاکستان کے حصہ دار ہیں۔ جیسے کسی کاروبار کو بہتر طور پر چلانے کے لیے تمام شراکت داروں کا ایک پیج ہونا ضروری ہوتا ہے، بالکل اسی طرح یہاں بھی نظر آتا ہے۔ اب تو اس میں عدلیہ بھی بطور پارٹنر شامل ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہ بات سیاسی حکومت کی کمزوری کو ثابت کرتی ہے۔ اب اس روایت کو ختم ہونا چاہیے اور آئی ایس پی آر کو یہ بات حکومتوں کو باور کروانی ہوگی کہ اب فوج کی صفائی فوج نہیں بلکہ سیاسی اور منتخب حکومت دے گی۔ اس سے فوج کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ فوج کا صفائی پیش کرنا ان کے جرم کو تسلیم کرنا جیسا لگتا ہے۔ اس سے اس ادارے کا وقار مجروع ہوتا ہے۔ فوج کے اعلیٰ حکام اس بات کو سمجھیں کہ اگر کچھ لوگ فوج کو گالیاں دیتے ہیں تو اس سے فوج کے وقار کو کچھ نہیں ہوتا۔ اس کا مورال اس وقت نیچے آتا ہے، جب وہ غیر فوجی معاملات میں شامل ہوتے اور صفائیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ کام منتخب حکومت کا ہے کہ وہ ملک کے باوقار اداروں کے تقدس کا خیال رکھے اور ان کو سیاسی ہونے سے بچائے۔ ساتھ ہی یہ بات تمام سیاسی افراد اور جماعتوں کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ افراد الگ ہوتے ہیں اور ادارے الگ ہوتے ہیں۔ جنرل باجوہ برا ہو سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ "یہ جو غنڈا گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے"، کسی طور پر مناسب نہیں۔ اس طرح کے نعروں اور باتوں کی ختم ہونا ہوگا۔ سیاسی رہنماؤں کو اپنے جلسوں میں اس قسم کے نعروں کی مخالفت کرنی ہوگی اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو جلسوں میں بھی اس بات کی نفی کرنی ہے اور تنبہی کرنی ہے کہ اس قسم کی باتوں اور نعروں سے اجتناب برتا جائے۔  

محمد ندیم جمیل 

شبعہ ابلاغِ عامہ -  جامعہ کراچی

17 اپریل، 2022