جمعرات، 21 اپریل، 2022

 

ایم کیو ایم کی تشکیلِ نو

ایم کیو ایم نے اپنی وفاداری تبدیل کرنے کی پہلی قسط وصول کر لی۔ وفاقی حکومت میں دو وزارتیں ایم کیو ایم کو دی گئیں ہیں۔ سید امین الحق انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن اور فیصل علی سبزواری کو بحری امور کے وزراء کے طور پر حلف لے چکے ہیں۔ ابتداء میں ایم کیو ایم نے وزارتیں لینے سے منع کیا تھا۔ جب سے ایم کیو ایم پاکستان کے بہادرآباد گروپ نے اپنی وفاداریاں ازراں قیمت میں فروخت کی ہیں، ہر جگہ اور ہر میٹنگ میں اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں۔ وہ یہ جان چکے ہیں کہ وہ ایک بہت بڑی غلطی کر چکے ہیں۔ خالد مقبول صدیقی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ متحدہ کو الیکشن کی تیاری کی ضرورت نہیں۔ وہ واقعی درست کہہ رہے ہیں۔ ان کے پاس کچھ ایسا رہا نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ کراچی کی عوام کا سامنا کریں گے۔ کراچی کی عوام کے حساب سے یہ دو دفعہ غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پہلے انھوں نے اپنے لیڈر سے غداری کی اور اب کراچی کے عوام سے غداری کی۔ اب یہ کراچی کی جتنی بھی خدمت کرلیں، یہ کراچی والوں کا دل نہیں جیت سکتے۔ کیوں کہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اس بنیاد پر کراچی کی عوام سے ان کو ووٹ ملیں گے تو اس معاملے میں مصطفیٰ کمال کے مقابلے کا کوئی نہیں۔ لیکن ہوا اس کے الٹ ہے۔ مصطفیٰ کمال کو کراچی کی عوام نے یکسر مسترد کر دیا۔ وہ خود اپنے مقامی حلقے سے بہت بری طرح شکست کھا چکے ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ کراچی پر پاکستان کے کسی بھی حصہ کی سیاست کا کوئی اثر نہیں ہوتا، لیکن کراچی کی سیاست کا اثر پورے پاکستان کی سیاست پر پڑتا ہے۔ کراچی والے سیلف میڈ لوگ ہیں۔ ان کو بیرونی امداد اور خدمات کی ضرورت نہیں۔ یہ اپنے مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر کراچی سے کمایا گیا پیسہ کراچی پر لگایا جائے تو کراچی کو وفاق سے کسی مدد کی ضرورت نہیں۔

بات ہو رہی تھی ایم کیو ایم پاکستان کے سیاسی زوال کی۔ ایم کیوایم پاکستان کے رہنماء یہ بات جانتے تھے کہ وہ اپنی بہت کم قیمت وصول کر رہے ہیں۔ لیکن مجبوری یہ ہے کہ جب ضرورت ہو تو اپنی قیمت نہیں ضرورت دیکھی جاتی ہے۔ عمران خان سے ان کو یہ بھی نہیں مل رہا تھا جو کہ موجودہ حکومت سے مل سکتا ہے۔ لیکن جو بھی ملے گا، ان کو ذاتی طور پر ملے گا۔ کراچی کے عوام کو اس سے کچھ ملتا نظر نہیں آ رہا۔ یہ اب نہ تو حکومت سے نکل سکتے ہیں اور نہ ہی موجودہ حکومت کو بلیک میل کر سکتے ہیں۔ وفاق سے ان کو جو کچھ ملنا تھا، وہ مل گیا۔ اب سندھ حکومت کی باری ہے۔ سندھ حکومت ان کو دستاویز میں تو شائد کچھ دے دے لیکن حقیقت میں ان کو کچھ نہیں دینے والی۔ پیپلز پارٹی کے پاس اس وقت بہترین وقت ہے کہ وہ لسانی تفریق کو مٹآ کر کراچی کے عوام کا دل جیت سکتی ہے۔ پہلے بھی پی پی پی کے رہنماء ہر تقریر اور موقع پر ایم کیوایم کو ایک دہشت گرد اور لسانی جماعت ثابت کرتی رہی ہے۔ اب بھی جو کچھ کراچی والوں کو دیا جائے گا، اس پر پیپلز پارٹی کی مہر ہوگی۔ یہ بتایا جائے گا کہ یہ سب کچھ پیپلز پارٹی اور بلاول ذرداری دے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم لاکھ چلائے، کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ وفاق اور پاکستان مسلم لیگ نواز بیچ میں اپنی ٹانگ نہیں اڑائے گی۔ اس کو بھی اگلے الیکشن میں جانا ہے، جہاں بہرحال پیپلز پارٹی اس کی حریف جماعت ہوگی۔ وہ خود چاہے گی کہ کراچی کی عوام کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان کنفیوژ کیا جائے۔ کراچی میں اس وقت تمام جماعتوں کے لیے سب سے بڑے سیاسی خطرے کے طور پر پاکستان تحریکِ انصاف سامنے آرہی ہے۔ اس بات کو بہت سنجیدگی سے لیا جائے کہ اس شہر میں ایم کیو ایم مردہ باد کے نعرے لگوا کر اور اس کا پرچم جلوا کر پی ٹی آئی نے اپنی موجودگی ثابت کر دی ہے۔ یہ کام آج تک پی پی پی بھی نہیں کروا سکی تھی۔

اب الیکشن سات مہنیوں بعد ہوں یا چودہ مہینوں بعد، ایم کیو ایم کو ووٹ مانگنے اس ہی عوام کے سامنے جانا پڑے گا، جس کا سامنا کرنے کی ان میں نہ تو ہمت رہی ہے اور نہ ہی طاقت رہی ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے پورے مستقبل کو دو وزارتوں کے عیوض بیچ دیا۔ اس بات کا ادراک ایم کیو ایم پاکستان کے تمام رہنماؤں کو ہے، کیوں کہ اتنے سخت عوامی ردِعمل کی توقع کسی کو بھی نہیں۔ میں پھر کہوں کہ اس میں بہت بڑا کردار تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیا ونگ کا ہے۔ جس کے مقابلے کا سوشل میڈیا ونگ کسی سیاسی جماعت کے پاس نہیں۔

ایم کیوایم پاکستان کے تمام سیاستدانوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اب کراچی کی عوام کو نعروں سے نہیں بہلایا جا سکتا۔ ویسے بھی جن نقاط پر ایم کیوایم پاکستان نے اپنی وفاداریاں تبدیل کی ہیں، ان میں سے عوام کے فائدے کا کوئی نہیں۔ ڈومیسائیل کا مسئلہ نہ تو پہلے کبھی حل ہوا نہ اب ہو سکتا ہے۔ یہ صرف سندھ حکومت کے ہاتھوں میں نہیں رہا۔ کیوں کہ اب کراچی میں ایک نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے، جو کراچی میں ہی پیدا ہوئی ہے اور کراچی میں ہی تعلیم حاصل کر کے کراچی والی ہو چکی ہے۔ ان کا کیا کیا جائے گا؟ دوسری بات کہ جعلی ڈومیسائل مسترد کرنا انتا آسان نہیں اور نہ ہی اس سلسلے کو روکنا۔ گریٹ ایک سے پندرہ تک کی تمام سرکاری ملازمتیں مقامی افراد کا حق ہوتی ہیں۔ کیا سندھ حکومت ایسا کر سکتی ہے کہ کراچی میں پرائمری اسکولوں کے تمام اساتذہ، تعلیمی اداروں اور دوسرے سرکاری اداروں کے تمام کلرکنان اور تمام نچلے درجے کہ ملازمین کو ملازمت سے فارغ کردے۔ ایسا ممکن ہی نہیں۔ ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ آئندہ کے لیے کوئی طریقہ کار وضع کیا جائے۔ لیکن مستقبل قریب میں اس کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اگر کراچی کا ناظم یا مئیر ایم کیو ایم کا بنا بھی دیا جائے تو وہ وسیم اختر سے زیادہ لاچار اور بے بس ہوگا۔ اس کا کوئی فائدہ کراچی کے عوام کو حاصل نہیں ہوگا۔ ہر موقع پر وہ عوام کے سامنے اپنی بے بسی کا رونا روئے گا۔ کراچی کی عوام کو جب حقوق پی پی پی سے ہی مانگنے ہیں تو وہ ایم کیو ایم کو ووٹ کیوں دیں گے؟ اگر سندھ کا گورنر ایم کیو ایم کا ہو گا تو اس کا بھی بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا کیوں کہ ڈاکٹر عشرت العباد سندھ کے سب سے طویل عرصہ تک گورنر رہنے کا اعزاز اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس کا ان کے دور میں کراچی کی عوام کو کیا فائدہ ملا تھا؟ کچھ بھی نہیں۔ اب بھی یہی ہوگا۔ ایم کیو ایم پاکستان کو اگر کسی سے کچھ مل سکتا ہے تو وہ کراچی کی عوام سے مل سکتا ہے۔ کراچی کی عوام نے ہی ان کو اتنی بلندی تک پہنچایا ہے اور ان لوگوں نے کراچی کو سوائے خوف کے کچھ نہیں دیا۔

میں نے جب سے آنکھ کھولی، ایم کیو ایم کو دیکھا۔ بہت کم عمری میں الطاف حسین کو تقریر کرتے دیکھا۔ جنرل ضیاء کے دور میں کراچی میں کرفیو کے دوران بجلی کے کھمبے بجانے کے عمل کا چشم دید گواہ رہا ہوں۔ اسی شہر میں خواتین کو جنازے اُٹھاتے دیکھا ہے۔ یہ سب کچھ پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کے دورِ حکومت میں ہوا تھا۔ اس بات کو کراچی کا کوئی بھی وہ گھر نہیں بھول سکتا، جس گھر سے تمام بھائیوں کے جنازے ایک ساتھ نکلے تھے۔ موجودہ ایم کیو ایم پاکستان ان تمام افراد سے غداری کا مرتکب ہو چکی ہے۔

اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی ہی پارٹی کے اور اپنی قوم کے افراد پر الزام لگا کر وہ کراچی کی عوام کا دل جیت سکتے ہیں تو ان کو خوابِ خرگوش سے جاگ جانا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج کراچی پر پی ایس پی حکومت کر رہی ہوتی۔ ایم کیو ایم پاکستان آج ختم نہیں ہوئی، وہ اس دن ختم ہو گئی تھی، جس دن فاروق ستار کو گریبان سے پکڑ کر موبائل میں بیٹھایا گیا تھا اور ایک شخص نے آواز بلند نہیں کی۔ یہ ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ یہ ایک تسلسل سے کی گئی غلطیوں کا نتیجہ تھا۔ جس کا انجام یہ ہوا۔ شاعر نے بہت خوب کہا ہے کہ

وقت کرتا ہے پروش برسوں                        حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ایم کیو ایم غلام ارباب رحیم کے دور میں بہت کچھ حاصل کر سکتی تھی، لیکن پانچ سالہ دور میں محض اپنے ذاتی فوائد کو دیکھا گیا۔ نہ تو کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے پر بات کی گئی، نہ بنگلہ دیش سے بہاریوں کو بلانے کی بات کی گئی اور نہ ہی علیحدٰہ صوبے کی بات کی گئی۔ حالانکہ یہ وہ تمام بنیادی نقاط تھے، جن پر ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

اگر ایم کیو ایم پاکستان کو دوبارہ عروج حاصل کرنا ہے تو ان کو دوبارہ زمین پر آنا ہوگا۔ ابتدائی دور میں ایم کیو ایم ہر علاقے میں سیکٹر کی بنیاد پر کارنر میٹنگز کا انعقاد کرتی تھی۔ وہاں علاقے کے بزرگوں کو مشورے کے لیے بلوایا جاتا تھا۔ ان سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ ان کی شکایات سُنی جاتی تھیں۔ بعض اوقات خود ایم کیو ایم کے لڑکوں کے خلاف شکایات ہوتی تھیں، اسی وقت ان لڑکوں کی سرزنش کی جاتی تھی۔ علاقے کے کسی لڑکے کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ علاقے کے کسی بزرگ سے بدتمیزی سے بات کرے یا ان پر رعب ڈال سکے۔ اس دور کو واپس لانا ہوگا۔ ایم کیوایم کے ذمہ داروں ایک ایک گھر جانا ہوگا۔ ایک ایک فرد سے اپنے کیے گئے اعمال کی غیر مشروط معافی مانگنی ہوگی۔ بغیر کسی صفائی دیے اور بغیر کسی دوسرے پر الزام لگائے۔ ہاتھ پکڑ کر گلے لگا کر کارنر میٹنگ میں بلانا ہوگا۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے معافی مانگنی ہوگی۔ ان سے مسائل کا حل لینا ہوگا۔ ان کے دکھوں پر مرہم رکھنا ہوگا۔ ان کو فیصلوں میں شامل کرنا ہوگا۔ کل بھی کراچی اردو اسپیکنگ والوں کا تھا اور آج بھی ہے۔ بس ان اردو اسپیکنگ والوں کو واپس ایم کیو ایم میں لانا ہوگا۔ کراچی کی عوام متحدہ قومی مومنٹ سے زیادہ مہاجر قومی مومنٹ سے ساتھ ہوں گی۔ یہی اصل پہچان ہے اور اس پہچان کو واپس لانا ہوگا۔ یہ بات تو طے ہے کہ ایم کیو ایم کچھ بھی کر لے، پنجاب یا کے پی کے میں سیٹیں نہیں جیت سکتی تو پھر ایسی کوشش کرنے میں توانائی اور اور رقم کا صیاں بیکار ہوگا۔ یہ سندھ تک ہی محدود رہے اور اسی پر فوکس کرے۔ صاف ستھرے اور باکردار افراد کو سامنے لانا ہوگا۔ جن پر علاقے کے افراد کو بھروسہ ہو۔ تعلیم یافتہ افراد کو ترجیع دینا ہوگا۔ غنڈہ گردی، بدمعاشی، داداگیری اور آوارہ گردی سے اجتناب برتنا ہوگا۔ اپنے اندرونی نظام کو درست کرنا ہوگا۔ اندرونی اختلافات کو بھلانا ہوگا۔    عوام کو خاص طور پر علاقے کے عمر رسیدہ افراد کو اولیت دینی ہوگی۔ بالکل ابتداء سے ابتداء کرنی ہوگی۔ اس میں بہت دشواری کا سامنا کرنا ہوگا۔ کیوں کہ نئی زمین پر عمارت کھڑی کرنا نہایت آسان ہوتا ہے، جب کہ کسی خراب عمارت کو گرا کر نئی عمارت بنانا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ یہی کچھ ایم کیو ایم کو کرنا ہے۔ نئی عمارت کی تعمیر کرنی ہے۔

اس بات کو ذہن میں بیٹھانا ہوگا کہ الطاف حسین کا گالی دے کر اور برا بھلا بول کر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس کا صرف نقصان ہی ہوگا۔ اس سے مکمل طور پر اجتناب برتنا ہوگا۔ سفر مشکل اور طویل لگتا ہے لیکن اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ کیوں کہ اگر ایک دفعہ تحریکِ انصاف کراچی پر قابص ہوگیا تو ایم کیو ایم کا واپسی کا سفر مزید دشوار ہو جائے گا۔

محمد ندیم جمیل –

21 اپریل 2022

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں