بلاول بطور وزیرِ خارجہ
بلاول بھٹو زرداری، ایک ایسا نام جس کے بارے میں
سب جاننا چاہتے ہیں۔ یہ ان لوگوں میں شامل ہیں، جن کو دولت، شہرت، عزت اور مرتبہ
میراث میں ملتا ہے۔
بلاول پاکستان کے دو مشہور خاندان سے تعلق رکھتے
ہیں۔ والد آصف علی زرداری کی جانب سے ان
کا تعلق زرداری خاندان سے ہے۔ زرداری خاندان بلوچ نزاد سندھی خاندان ہے۔
آصف علی زردای کی والدہ حسن علی آفندی کی پوتی تھیں۔ آصف علی زرداری اپنے والد
حاکم علی ذرادری کے اکلوتے بیٹے اور ذرداری خاندان کے سربراہ اور سردار ہیں۔ جب کہ
بلاول زرداری بھی اپنے والد کے اکلوتے اولادِ نرینہ ہیں۔ اس طرح یہ مستقبل میں
ذرداری خاندان کے بِلا شرکتِ غیرے سردار اور سربراہ ہیں۔
دوسری جانب والدہ بینظیر بھٹو کی جانب سے ان کا
تعلق بھٹو خاندان سے ملتا ہے۔ بھٹو خاندان سندھ کے سب سے زیادہ امیر اور مشہور
خاندانوں میں سے ایک ہے۔ بھٹو خاندان کا آبائی علاقہ رتوڈیرو ہے اور وہ وہاں مغلوں
کے دور سے آباد ہیں۔ بھٹو خاندان کے دو افراد ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو
پاکستان کے وزیرِ اعظم رہ چکے ہیں۔ یہ اپنے میں ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ دوسری جانب
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم اور بے نظیر بھٹو پاکستان اور
دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم کا ریکارڈ اپنے پاس رکھتی ہیں۔
اس طرح دیکھا جائے تو والد اور والدہ دونوں جانب
سے بلاول ایک اچھی شہرت اور ساکھ کے مالک ہیں۔ بلاول کے والدین پاکستان کے سربراہ
رہ چکے ہیں۔ ان کے والد آصف علی ذرداری پاکستان کے گیارویں صدر تھے، جب
کہ والدہ پاکستان کی گیارویں وزیرِ اعظم رہی ہیں۔
بلاول 21 ستمبر 1988 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔
انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کراچی گرامر اسکول، کراچی اور فروبلز انٹرنیشنل
اسکول، اسلام آباد سے حاصل کی۔ 1999ء میں اپنی والدہ کے ساتھ دبئی منتقل ہونے کے
بعد اپنی تعلیم راشد اسکول فار بوائز، دبئی سے مکمل کی۔ مزید تعلیم کے لیے 2007ء
میں آکسفورڈ یونیورسٹی، لندن، انگلینڈ کا انتخاب کیا اور 2010ء میں مارڈن ہسٹری
اور سیاسیات میں گریجیویشن مکمل کیا۔ انھوں نے اپنے اسکول میں تائی کانڈو میں بلیک
بیلٹ بھی حاصل کیا ہے۔
2007ء میں بے نظیر کی اچانک شہادت کے بعد بے
نظیر کی وصیت کے مطابق بلاول کو بلاول ذرداری سے بلاول بھٹو ذرادری کا نام دیا گیا
اور تاحیات پاکستان پیپلز پارٹی کا چئیرمین منتخب کیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف
19 سال تھی۔ کم عمری اور تعلیم مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے والد آصف علی ذرداری
کو کو-چئیرمین کے طور پر منتخب کیا گیا اور بلاول کی پارٹی سے سنبھالنے تک پارٹی
کی ذمہ داری آصف علی ذرداری کے سپرد کی گئی۔
بلاول نے سیاسی ماحول میں آنکھ کھولی اور ان کی
پرورش ایک ایسے سیاسی گھرانے میں ہوئی جو پاکستان کے سب سے مشہور سیاسی گھرانوں
میں سے ایک ہیں۔ بلاول نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے والد کی اپنے ماموں میر مرتضٰی
بھٹو کے قتل میں گرفتار اور اپنی والدہ کو اپنے والد کی رہائی کے لیے عدالتوں کے
چکر لگاتے دیکھا ہے۔ وہ بہت کم سنی میں اپنی والدہ کے ساتھ عدالت کے باہر اپنی
والد کی پیشی پر موجود رہے تھے۔ لازمی وہ یہ سب بھولے نہیں ہوں گے۔ اس کے فورا بعد
پاکستان سے باہر خود ساختہ جلاوطنی میں ان کی پرورش ہوئی۔ جو کہ خود اپنے اندر ایک
سزا جیسا ہے، جو کہ ان کو بے نظیر اور آصف علی کی اولاد ہونے پر ملی۔ جس وقت پرویز
مشرف نے ایک این آر او کے ذریعے تمام سیاسی مقدمات ختم کیے تو بے نظیر اور آصف علی
پر لگائے ہوئے الزامات بھی کالعدم قرار
پائے اور بے نظیر خودساختہ جلاوطنی ترک کر کے پاکستان آ گئیں۔ لیکن شائد وہ جانتی
تھیں کہ وہ موت کے سفر پر جا رہی ہیں، اسی وجہ سے وہ اپنے ساتھ اپنے شوہر آصف علی
اور بیٹے بلاول کو نہیں لے کر آئیں۔ بےنظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی وصیحت کے
مطابق بلاول ذرداری کو بلاول بھٹو ذرداری کا نام دیا گیا اور پاکستان پیپلز پارٹی
کا چئیرمین نامزد کر دیا گیا۔ اس وقت بلاول برطانیہ میں اپنی تعلیم مکمل کر رہے
تھے، جس وجہ سے وقتی طور پر پارٹی کا نظم و ضبط ان کے والد اور بے نظیر بھٹو کے
شوہر آصف علی زرداری کو کوچئیرمین نامزد کرکے دے دیا گیا۔
جب بلاول نے سیاسی میدان میں قدم رکھا تو ان کی
تربیت اور رہنمائی کے لیے ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے نانا
ذوالفقار علی بھٹو حیات نہیں تھے۔ اس وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی سیاسی تربیت
زیادہ تر ان کے والد آصف علی ذرداری نے کی۔ جس وقت بلاول نے عملی سیاست شروع کی تو
اس وقت پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی اور نواز شریف ملک نے وزیرِاعظم تھے۔
لازمی ہے کہ نواز شریف اور مسلم لیگ نون ان کے حلیف تھے اور اسی وجہ سے بلاول کی
ابتدائی تقاریر اور بیانات نون لیگی رہنماؤں کے خلاف رہے اور وہ تقاریر میں ان کی
بھرپور مخالفت کرتے رہے۔ 2018ء کے الیکشن کے نتیجے میں پاکستان تحریکِ انصاف کی
حکومت وجود میں آئی اور پی ٹی آئی نے بہت زیادہ کڑا اور جابرانہ احتساب کی سلسلہ
شروع کیا اور مخالفین کے تمام بند اور منجمد کیسوں کو کھلوایا۔ اس بات کو مدِنظر
رکھا جائے کہ تحریکِ انصاف کے دور میں نئے کیس بہت کم بنائے گئے۔ زیادہ تر کیس وہ
ہیں، جو کہ پیپلز پارٹی کے ادوار میں نواز لیگ پر اور نواز لیگ کے ادوار میں نون
لیگ پر بنائے گئے۔
عمران خان اور تحریکِ انصاف کے خلام ملک کی 11
سیاسی جماعتوں نے مل کر ایک متحدہ سیاسی جماعت پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (Pakistan
Democratic Movement)
(ُPDM) کی بنیاد رکھی
اور ایک طویل اور مشکل جدوجہد کے نتیجہ میں تحریکِ انصاف کے منتخب کردہ وزیرِاعظم
اور پارٹی کے سربراہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد اسمبلی میں کامیاب
کروائی۔ جس کے نتیجہ میں ملک میں مشترکہ سیاسی جماعت پی ڈی ایم کی حکومت بن گئی۔
نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے سابقہ وزیرِاعلیٰ شہباز شریف ملک کے 23ویں
وزیرِاعظم بن گئے۔
بلاول بھٹو نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ملک کے
وزیرِ خارجہ کے طور پر کیا ہے۔ اس وقت یہ عہدہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا اس وقت دو
گروہوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک طرف یورپی یونین، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک
ہیں جب کہ دوسری جانب ہمارے پڑوسی ممالک چین اور روس ہیں۔ پاکستان کا کردار اس وقت اپنے جغرافیائی
اور سیاسی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کی مجبوری ہے کہ
وہ دونوں گروہوں میں سے کسی کے بھی مخالفت میں کھڑا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی
غیرجانبداری کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات پاکستان کی معاشی صورتِ
حال اور بھارت سے تنازعات ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک سے تجارت پاکستان کی معیشت
میں ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے، جب کہ چین کی مخالفت کے بارے میں پاکستان سوچ بھی
نہیں سکتا۔ اس وقت وزیرِخارجہ کی پوزیشن نہایت اہم ہے اور بلاول بھٹو زرداری کا یہ
پہلا تجربہ ہے کہ وہ انتی اہم ذمہ داری کو نبھانے جا رہے ہیں۔ بلاشبہ ان میں صلاحیتیں
موجود ہیں اور وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں نہایت عمدہ طریقہ سے پوری کر سکتے
ہیں۔ وہ بھٹو اور زرداری دونوں خاندانوں کے نمائندے کے طور پر موجود ہیں اور اپنے
کردار کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ اس وقت ان کو صرف اور صرف ذوالفقار علی بھٹو کی
طرح سوچنا ہوگا۔ کیوں کہ ان کے نانا قائداعظم محمد علی جناح کا انتخاب تھے اور
ذوالفقار علی بھٹو نے کبھی قائداعظم کو شرمندہ نہیں کیا۔ انھوں نے پھانسی کی سزا
قبول کی، لیکن کبھی عدلیہ اور پاکستان کی مخالفت نہیں کی۔ انھوں نے اپنے ملک میں
پھانسی چڑھ جانا پسند کیا لیکن اپنے ملک سے فرار ہونا پسند نہیں کیا۔ بلاول نے
نانا نے ملک کو ایک ایسا مکمل اور جامع آئین دیا جو کہ آج تک نافذالعمل ہے اور
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اس آئین پر یقین رکھتی ہیں۔ بلاول کی والدہ نے بھی
ملک میں شہید ہونا پسند کیا۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، پھر بھی وہ
جمہوریت کی سر بلندی اور آمریت کی شکست کے لیے پاکستان آئیں۔ ان کی شہادت کے بعد
بلاول کے والد آصف علی زرداری نے ملک کو مزید بکھرنے اور ٹوٹنے سے بچانے کے لیے
"پاکستان کھپے" کا نعرہ لگایا۔ بلاول کو ان تمام باتوں کی عزت رکھنی ہے
اور ملک کو مزید نقصانات سے بچانا ہے۔ وہ ملک کے مستقبل کے وزیرِاعظم بھی ہو سکتے
ہیں۔ اس وجہ سے ان کو اپنی سوج اور ویژن کو بہت وسیع کرنا ہوگا۔ اندورنی سیاست
اپنی جگہ، لیکن اب ان کو پورے پاکستان کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ اس وقت پاکستان کو
ایک ایسے لیڈر کی تلاش ہے جو بین القوامی طور پر پاکستان کی نمائندگی کر سکے اور
جس کا ماضی بے داغ ہو۔ بلاول وہ واحد لیڈر کے طور پر سامنے آسکتے ہیں، جن میں یہ
دونوں صلاحیتیں موجود ہیں۔ وہ اس وقت جوان ہیں اور ایک لمبے عرضہ تک سیاست کرنے کے
اہل ہیں۔ ان کو اپنی اہلیت ثابت کرنی ہوگی اور ان کو موجودہ پوزیشن ان کے لیے ایک
ٹیسٹ کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ اس وقت سیاسی مخالفت سے بالاتر ہو کر اگر صرف پاکستان
کے بارے میں سوچا جائے تو بلاول پاکستان کے لیے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
اور کر سکتے ہیں۔
محمد ندیم جمیل
28 اپریل، 2022
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں