یہ قصّہ ہے ایک اسائنمنٹ کا جو ہمارے ایک ہر دل عزیز استاد
نے ہمیں پہلے سمیسٹر کے آخر میں دیا۔ قصّہ تو کلاس کے طالبِ علموں کا ہے، لیکن چوں
کہ اسائنمنٹ سے متعلق ہے اس لیے اسے اسائنمنٹ کا قصّہ ہی کہیں گے۔ اس اسائنمنٹ کے
ملنے سے پہلے ہماری کلاس کے طالبِ علموں میں اتنا اتحاد تھا کہ ہر کام میں ساتھ
ہوتے تھے یہاں تک کہ چھٹی بھی اس طرح کرتے تھے کہ استاد کو لگتا تھا کہ وہ اتوار
کو کلاس لینے آگیا ہے، یعنی سب غائب۔ خیر اب بات کرتے ہیں اسائنمنٹ کی۔ تو ہوا کچھ
یوں کہ محترم استاد صاحب نے کلاس میں تین گروپ بنا نے کا کہا تو کلاس کی حالت ایسی
ہوگئی جیسی ایم کیو ایم کی ہوئی ۔ کسی کو نہیں پتا کہ وہ کس گروپ میں ہے۔ کچھ دنوں
میں ہی گروپ بن گئے اور لوگ الگ الگ گروپ میں تقسیم ہوگئے۔ اب ایک کلاس تین کلاس
بن چکی تھی۔ اب باری آئی کہ اسائنمنٹ بنایا کس موضوع پر جائے۔ تو چلو سب موضوع
ڈھونڈو۔ جیسے کسی سرکاری ملازم کنوارے بھائی کا رشتہ ڈھونڈا جاتا ہے۔ ہرموضوع میں
خرابی نکال نکال کر آخرکار سب کو موضوع مل ہی گیا۔ اب باری تھی موضوع کا نام کرن
کی یعنی نام رکھنےکی۔ اب نام رکھتے رکھتے ہفتے گزر گئے۔ نام یوں ڈھونڈا جا رہا تھا
گویا نام رکھنے کا اسائنمنٹ ملا ہو اور نام رکھتے ہی اسائنمنٹ مکمل ہوجائے گا۔ نام
بھی رکھ لیا گیا خدا خدا کرکے۔ ابھی تو ابتدا تھی۔ سب کام پر لگ گئے اسائنمنٹ کے۔
اب کسی کو پتا نہیں تھا کہ کون کس گروپ میں ہے تو جوں ہی ملاقات ہوتی تو پوچھتے کہ
تم کس گروپ میں ہو۔ اور جب پتا چل گیا تو پھر جب ملاقات ہوتی اور علیک سلیک کے بعد
فورا کہتے کہ تمہارا گروپ وہاں بیٹھا ہے یا وہ خود ہی پوچھ لیتا کہ میرے گروپ کے
لوگ کہاں ہیں کہ جیسے کچھ دیر یہاں کھڑا
رہا تو یا تو اس کو چھوت کی بیماری لگ جائے گی یا ہمیں۔ اب یہ ہونے لگا کہ جو کلاس
ایک ساتھ ہر جگہ نظر آتی تھیں، وہاں تین تین کلاسیں نظر آنے لگیں۔ ڈیپارنمنٹ کے
ہال میں، کینٹین میں، ہوٹل میں، یہاں تک کہ کلاس میں بھی۔۔ ہمارے استادِ محترم نے
ایک ہی کلاس میں تین کلاسیں بنا دیں۔ سب اپنے اپنے کام کو دوسروں سے اس طرح
چھپارہے تھے جیسے ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں لوگ رقم چھپاتے ہیں جس کی وجہ سے ان
کے شریف وزیرِ اعظم نیریندرہ مودی نے500 اور 1000 کے نوٹ ہی بند کروانا پڑے ۔ اپنے
اپنے اسائنمنٹ کے معلومات پر ہم جس قدر تحقیق کر رہے تھے کہ اس سے آدھی سے آدھی تحقیق
اگرسِرل آلیمیڈا کرلیتا تو بےچاریے کا نام ای۔سی۔ایل میں نہ ڈالنا پڑتا۔ ہمارا یہ
حال تھا کہ ہمیں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ ہمارے دنیا میں آنےاور ڈیپارنمنٹ میں داخلہ
لینے کا مقصد ہی یہی ایک اسائنمنٹ بنانا ہے۔ ہر شخص ہاتھ ملا کربندے کی خیریت بعد
میں پوچھتا تھا، اسائنمنٹ کی خیریت پہلے پوچھتا تھا۔ گھر میں بھی شائد یہی حال
ہوگا کہ والد کو سلام یوں کرتا ہوگا۔ "اسلام وعلیکم ابو، اسائنمنٹ کا کیا
ہوا۔" یا والدہ سے کھانا یوں مانگتا ہوگا "امی اسائنمنٹ تیاد ہے تو
دیدیں، یونیورسٹی جانا ہے۔" طالبِ علم تو شائد سوتے میں بھی اسائنمنٹ
اسائنمنٹ بڑبڑاتے ہوں گے۔ اسائنمنٹ بناتے بناتے پتا ہی نہیں چلا اور امتحان سر پر آگئے تو یاد آیا کہ بھائی اور بھی
تو مضامین ہیں جن میں پاس ہونا بھی ضروری
ہے ورنہ ایک اسائنمنٹ کی وجہ سےسارے پرچوں میں تو پاس ہونے سے رہے۔ زندگی میں اسائنمنٹ اور بنائے مگر ایسا اسائنمنٹ کبھی نہیں بنایا۔ اگر
قائدِ اعظم کو ایسا اسائنمنٹ بنانے کو ملتا تو شائد وہ بھی وکیل نہ بن پاتے۔ شائد
اسی وجہ سے دنیا کے تمام بڑے لوگ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے ورنہ وہ اسائنمنٹ مکمل
کرتے رہ جاتے اور دوسرے ان سے آگے نکل جاتے۔ اب اسائنمنٹ جمع تو کروادیا ہے۔
دیکھیں کتنے نمبر آتے ہیں اس اسائنمنٹ میں۔
خدا خیر کرے ۔
محمد ندیم جمیل – 16 نومبر، 2016