بدھ، 16 نومبر، 2016

قصّہ اسائنمنٹ کا

یہ قصّہ ہے ایک اسائنمنٹ کا جو ہمارے ایک ہر دل عزیز استاد نے ہمیں پہلے سمیسٹر کے آخر میں دیا۔ قصّہ تو کلاس کے طالبِ علموں کا ہے، لیکن چوں کہ اسائنمنٹ سے متعلق ہے اس لیے اسے اسائنمنٹ کا قصّہ ہی کہیں گے۔ اس اسائنمنٹ کے ملنے سے پہلے ہماری کلاس کے طالبِ علموں میں اتنا اتحاد تھا کہ ہر کام میں ساتھ ہوتے تھے یہاں تک کہ چھٹی بھی اس طرح کرتے تھے کہ استاد کو لگتا تھا کہ وہ اتوار کو کلاس لینے آگیا ہے، یعنی سب غائب۔ خیر اب بات کرتے ہیں اسائنمنٹ کی۔ تو ہوا کچھ یوں کہ محترم استاد صاحب نے کلاس میں تین گروپ بنا نے کا کہا تو کلاس کی حالت ایسی ہوگئی جیسی ایم کیو ایم کی ہوئی ۔ کسی کو نہیں پتا کہ وہ کس گروپ میں ہے۔ کچھ دنوں میں ہی گروپ بن گئے اور لوگ الگ الگ گروپ میں تقسیم ہوگئے۔ اب ایک کلاس تین کلاس بن چکی تھی۔ اب باری آئی کہ اسائنمنٹ بنایا کس موضوع پر جائے۔ تو چلو سب موضوع ڈھونڈو۔ جیسے کسی سرکاری ملازم کنوارے بھائی کا رشتہ ڈھونڈا جاتا ہے۔ ہرموضوع میں خرابی نکال نکال کر آخرکار سب کو موضوع مل ہی گیا۔ اب باری تھی موضوع کا نام کرن کی یعنی نام رکھنےکی۔ اب نام رکھتے رکھتے ہفتے گزر گئے۔ نام یوں ڈھونڈا جا رہا تھا گویا نام رکھنے کا اسائنمنٹ ملا ہو اور نام رکھتے ہی اسائنمنٹ مکمل ہوجائے گا۔ نام بھی رکھ لیا گیا خدا خدا کرکے۔ ابھی تو ابتدا تھی۔ سب کام پر لگ گئے اسائنمنٹ کے۔ اب کسی کو پتا نہیں تھا کہ کون کس گروپ میں ہے تو جوں ہی ملاقات ہوتی تو پوچھتے کہ تم کس گروپ میں ہو۔ اور جب پتا چل گیا تو پھر جب ملاقات ہوتی اور علیک سلیک کے بعد فورا کہتے کہ تمہارا گروپ وہاں بیٹھا ہے یا وہ خود ہی پوچھ لیتا کہ میرے گروپ کے لوگ کہاں ہیں کہ جیسے  کچھ دیر یہاں کھڑا رہا تو یا تو اس کو چھوت کی بیماری لگ جائے گی یا ہمیں۔ اب یہ ہونے لگا کہ جو کلاس ایک ساتھ ہر جگہ نظر آتی تھیں، وہاں تین تین کلاسیں نظر آنے لگیں۔ ڈیپارنمنٹ کے ہال میں، کینٹین میں، ہوٹل میں، یہاں تک کہ کلاس میں بھی۔۔ ہمارے استادِ محترم نے ایک ہی کلاس میں تین کلاسیں بنا دیں۔ سب اپنے اپنے کام کو دوسروں سے اس طرح چھپارہے تھے جیسے ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں لوگ رقم چھپاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے شریف وزیرِ اعظم نیریندرہ مودی نے500 اور 1000 کے نوٹ ہی بند کروانا پڑے ۔ اپنے اپنے اسائنمنٹ کے معلومات پر ہم جس قدر تحقیق کر رہے تھے کہ اس سے آدھی سے آدھی تحقیق اگرسِرل آلیمیڈا کرلیتا تو بےچاریے کا نام ای۔سی۔ایل میں نہ ڈالنا پڑتا۔ ہمارا یہ حال تھا کہ ہمیں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ ہمارے دنیا میں آنےاور ڈیپارنمنٹ میں داخلہ لینے کا مقصد ہی یہی ایک اسائنمنٹ بنانا ہے۔ ہر شخص ہاتھ ملا کربندے کی خیریت بعد میں پوچھتا تھا، اسائنمنٹ کی خیریت پہلے پوچھتا تھا۔ گھر میں بھی شائد یہی حال ہوگا کہ والد کو سلام یوں کرتا ہوگا۔ "اسلام وعلیکم ابو، اسائنمنٹ کا کیا ہوا۔" یا والدہ سے کھانا یوں مانگتا ہوگا "امی اسائنمنٹ تیاد ہے تو دیدیں، یونیورسٹی جانا ہے۔" طالبِ علم تو شائد سوتے میں بھی اسائنمنٹ اسائنمنٹ بڑبڑاتے ہوں گے۔ اسائنمنٹ بناتے بناتے پتا ہی نہیں چلا اور  امتحان سر پر آگئے تو یاد آیا کہ بھائی اور بھی  تو مضامین ہیں جن میں پاس ہونا بھی ضروری ہے ورنہ ایک اسائنمنٹ کی وجہ سےسارے پرچوں میں تو پاس ہونے سے رہے۔  زندگی میں اسائنمنٹ اور  بنائے مگر ایسا اسائنمنٹ کبھی نہیں بنایا۔ اگر قائدِ اعظم کو ایسا اسائنمنٹ بنانے کو ملتا تو شائد وہ بھی وکیل نہ بن پاتے۔ شائد اسی وجہ سے دنیا کے تمام بڑے لوگ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے ورنہ وہ اسائنمنٹ مکمل کرتے رہ جاتے اور دوسرے ان سے آگے نکل جاتے۔ اب اسائنمنٹ جمع تو کروادیا ہے۔ دیکھیں کتنے نمبر آتے ہیں اس اسائنمنٹ میں۔
خدا خیر کرے ۔

محمد ندیم جمیل – 16 نومبر،  2016

بدھ، 2 نومبر، 2016

شائد کبھی نہیں


کل میں قائد اعظم کے مزار پر گیا ، سوچا کہ آج قائد اعظم کے مزار پر حاضری دی جائے اور قائد اعظم کو سلام کیا جائے۔ جب میں مزارکے احاطے میں داخل ہوا تو قائد اعظم کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ قائد اعظم کے کروار ، ان کے مضبوط ارادوں  کے بارے میں سوچ  رہا تھا۔  جب میں مزار   کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگا تو سوچنے لگا کہ کیا میں اس شخص کے مزار پر جا کر ان سے آنکھ ملانے کے قابل ہوں جس نے اپنا سب کچھ اس ملک کے لوگوں  کے لیے قربان کر دیا۔ اپنا پیشہ ، اپنا گھر، اپنا کاروبار، اپنا مستقبل ، یہاں تک کہ اپنی جان بھی۔ اُنھوں نے اپنا علاج محض اس وجہ سے نہیں کروایا کہ اگر ہندؤں اور انگریزوں کو اُن کی بیماری کا پتا چل گیا تو شائد برِصغیر کی تقسیم کے معاملہ سستی کا شکار ہوسکتا ہے ۔ خود لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے الفاظ تھے "اگر ہمیں پہلے پتہ ہوتا کہ محمد علی جناح اتنے بیمار ہیں تو ہم بر ِ صغیر کی تقسیم روک کر دیتے، کیوں کہ اُن کے بعد  کوئی نہیں ہے جو مسلمانوں کے لیے ملک آزاد کرواسکتا۔" اِس کے علاوہ  لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مزید کہا " اگر مسلم لیگ میں 100 گاندھی  اور 100 نہرو ہوتے اور ایک محمد علی جناح نہیں ہوتے تو پاکستان کبھی نہیں بنتا۔ " کیا ہم اس شخص سے آنکھ ملانے کے قابل ہیں جنہوں نے اپنے بھائی کا تعارفی رقعہ صرف اس لیے پھاڑ کر پھینک دیا تھا کیوں کہ اس نے  اس رقعہ پربرادر آف گورنر جنرل آف پاکستان کے الفاظ تحریر کیے تھے۔ جو زیارت جیسے سرد علاقےمیں ایک روپے کا موزہ نہیں لیتے ۔ اس لیے نہیں کہ وہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے بلکہ اس وجہ سے کہ پاکستان جیسے غریب ملک کے گورنر جنرل کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اتنا مہنگا موزہ خرید سکے۔ جو سرکاری سامان کی فہرست میں فاطمہ جناح کے کچھ سامان کا نام دیکھ کر ناراض ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتیں۔ جو ایک نرس کے تبادلے  کرنے پر محکمہ ِ صحت سے  معافی مانگتے ہیں اور تبادلہ کے احکامات واپس لیتے ہیں کیوں کہ صحت ان کا محکمہ نہیں تھا اور ان کو اس تبادلے کا کوئی حق نہیں تھا۔ جو پاکستان بننے کے چند دنوں کے بعد والی عید کی نماز پڑھنے مسجد جاتے ہیں اور آخری کی صفوں میں بیٹھتے ہیں کیوں کہ وہ دیر سے آئے تھے۔ جو اپنے  اور دوسرے محکموں کے سگریٹریوں کو کہتے ہیں کہ رف پیڈ میں دونوں طرف پینسل سے لکھو  تاکہ مٹا کر دوبارہ استعمال کیا جاسکے۔ جو کابینہ کی میٹنگ میں چائے یا کافی کا منع کر دیتے ہیں کیوں کہ یہ ایک غریب اور نیا ملک ہے جہاں اِن عیاشیوں کی اجازت نہیں ہونی جاہیے۔ جو اپنی اس بیماری میں بھی لندن یا کسی دوسرے ملک جا کر اپنا علاج نہیں کرواتے۔ جو اپنی تنخواہ صرف ایک روپیہ رکھتے ہیں کیوں کہ ملک کی معیشت اچھی نہیں تھی، لیکن تنخواہ رکھتے ضرور ہیں کیوں کہ پاکستان خود دار ملک ہے، یہ کسی کا احسان نہیں رکھتا۔  جو اتنے امیر تھے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں جاکر اپنا علاج اپنے خرچے  پر کرواسکتے تھے، لیکن نہیں کروایا۔ جنہو ں نے پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور پاکستان نے  انھیں کیا دیا۔ جب وہ اپنی بیماری میں زیارت سے کراچی آئے تو اُن کو لانے کے لئے ایسی ایمبولینس بھیجی جس میں نہ پیٹرول تھا اور نہ اسٹپنی۔ نہ کوئی پروٹوکول ، نہ گاڑیوں کی قطاریں، کچھ بھی نہیں ۔ راستے میں ایمبولینس بھی خراب ہو گئی اور ان کو جنہوں نے پاکستان بنایا، انھیں ایک ریڑھے میں ڈال کر ہسپتال لایا گیا۔  میں مزار کی سیڑھیوں سے ہی واپس آگیا۔ آج بحیثیت انسان، بحیثیت مسلمان، بحیثیت پاکستانی مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں اُن کے مزار پر جاکر حاضری دے سکوں اور اُن سے آنکھ ملا سکوں۔ کیا مجھ میں کبھی اتنی ہمت ہوگی یا میں کبھی اِس قابل ہو سکوں گا کہ اُن سے آنکھ ملا سکوں؟ کبھی نہیں، شائد کبھی نہیں۔

محمد ندیم جمیل – جامعہ ِکراچی

جمعہ، 28 اکتوبر، 2016

پاکستان کے اصل دشمن



پاکستان جب سے قائم ہوا ہے، اسے بھارت کی دشمنی کا سامنا رہا ہے۔ بھارت شروع دن سے پاکستان کو ہر طریقے سے نقصان پہچانے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔ لیکن پاکستان کو بیرونی دشمنوں سے زیادہ اندورنی دشمنوں سے خطرات لاحق ہیں۔  پاکستان کے اندرونی دشمن جہالت،  بےروزگاری،  ناانصافی،  طبقاتی فرق، مہنگائی، دولت کی غیر منصفانہ  تقسیم،    رشوت،  لاقانونیت اور سیاسی بے چینی ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے 17-2016 کا بجٹ تقریبا 4،394 ارب روپے کا ہے جس میں سے  1،804 ارب روپے یعنی تقریبا 41 فیصد قرضوں اور سود کی ادایئگی اور تقریبا 860 ارب روپے جو کہ کُل بجٹ کا 21 فیصد بنتا ہے ، دفا ع کے لیے رکھے ہیں۔ جبکہ تعلیم اور صحت کے لیے صرف 2 فیصد یعنی 96.4 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔(یہ اعداد و شمار فیڈرل بجٹ 17-2016 سے لیے گئے ہیں)۔  ہمارے بڑے مسئلوں میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے ۔  یہ تمام چیزیں نہ صرف دہشتگردی کو پیدا کرتی ہیں بلکہ ان کی پرورش میں بھی مدد فراہم کرتی ہیں۔  ہمارے ملک کا ایک طبقہ چاہتا ہی نہیں کہ یہ مسائل  حل ہوں ، کیونکہ وہ ان مسائل کی مدد سے ہی  ملک اور ملک کے عوام پر حکومت کر رہے ہیں۔ جو اس ملک سے دولت کماتے ہیں اور اپنا پیسہ باہر ممالک میں رکھتے ہیں کیونکہ ان کو صرف پاکستان سے اس حد تک دلچسپی ہے کہ جتنی ایک کارخانے کے مالک کو اپنے مزدوروں سے ہوتی ہے۔  اگر پاکستان تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مضبوط ہو گا توکسی کی جرات نہیں ہوگی کہ پاکستان کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھ سکے۔   

قانون کہاں ہے؟

اسلام نے جتنی عزت، احترام اور حقوق خواتین کو دیے ہیں اور کسی مذہب نے نہیں دیے۔ لیکن جس طرح اسلام اور عزت کے نام پر خواتین کے حقوق کا استحصال پاکستان میں ہو رہا ہے، وہ ایک لحمہ ِ فکریہ ہے۔ یہاں دن دہاڑے خواتین کو عزت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے اور مجرم کو مجرم کے بجائے ہیرو اور اسلام کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ چاہے وہ بریڈ فورڈ کی صائمہ شاہد ہو، ملتان کی فوزیہ عظیم (قندیل بلوچ) ہو یا اورنگی ٹاؤن کی سمیرا۔ ایسے ہزاروں نام ہیں جو غیرت کے نام پر قربان ہو کر منوں مٹی تلے دب گئے اور شائد اب ان کے لئے انصاف کی بات کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ قاتل وہ ہوتے ہیں جن پر سب سے زیادہ بھروسہ کیا جاتا ہے یعنی باپ، بھائی، شوہر اور دوسرے سگے رشتے دار جن سے خون کا رشتہ ہوتاہے اور جن کی موجودگی میں خواتین خود کو دوسروں سے محفوظ تصور کرتی ہیں۔ دیہاتوں میں تو ایسا ہوتا ہے کہ اگر مرد سے باہر کسی کا قتل ہو جائے تو وہ گھر آکر اپنی کسی بھی رشتہ دار یعنی بہن، بھابھی، بیوی، بیٹی یہاں تک کہ ماں کو مار کر اس معاملےکو عزت کے نام پر قتل کا نام دیدیتا ہے اورپورا خاندان اس کو عزت کا رکھوالا سمجھ کر اس کو قانون سے بچانے میں لگ جاتا ہے۔ اگر معاملہ کارو کاری تک جائے تو یہاں بھی شکار عورتیں ہی ہوتی ہیں۔ پنجاب میں خواتین کے حقوق کا ایک بل پاس ہوا، لیکن اس کا کوئی فائدہ ہوا؟ نہیں۔ کیونکہ قانون بنانے سے اہم اس قانون پر عمل کروانا ہوتاہے۔  اور افسوس کی بات ہے کہ پولیس بھی جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قاتل کا ساتھ دیتی ہے۔ اگر پولیس غیر جانبدار ہو جائے تو آدھے سے زیادہ جرائم اپنے آپ ختم ہو جائیں۔  
                        جہاں طوفان بنیاد و فصیل و در میں رہتے ہیں            ہمارا حوصلہ دیکھو ، ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں

محمد ندیم جمیل - جامعہ ِ کراچی - 12 ستمبر 2016

پاکستانی فوج کو سلام


اسلامی جمہوریہ   ِپاکستان نہ صرف اسلامی دنیا کا ایک اہم ملک ہے بلکہ واحد مسلم ایٹمی ملک کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔ ماشاء اللہ سے پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹی سب سے بڑی فوج موجود ہے جو اس پاک سر زمین کے ایک ایک انچ زمین اور ایک ایک پاکستانی کی حفاظت کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔  اس بات کو آج نہیں برسوں پہلے سعودی عرب کے شاہ فیصل شہید نے بھی تسلیم کیا تھا اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا تھا۔ بھارتی میڈیا افواہیں پھیلا کر اپنےہی  ملک کے  مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔  آج کے جدید دور میں جب ایک چھوٹے سےملک میں ہونے والا کوئی بھی واقع بڑی آسانی سے سیٹیلائٹ کے ذریعے کہیں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔  اس دور میں اس قسم کاسرجیکل اسٹرآئیک کا ہونا اور اس کا کوئی ثبوت فراہم نہ کرنا بھارت کے جھوٹ کو ثابت کرتا ہے۔ بھارت اس قسم کے جھوٹ بول کر صرف اپنی عوام کو بے وقو ف بنا سکتا ہے، دنیا کو نہیں۔  بھارت پاکستان کا طاقت کے ذریعے کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور مجبوری ہے کہ وہ اپنی عوام کو یہ بتا بھی نہیں سکتا۔ سرجیکل اسٹرائیک مذاق نہیں ہے۔ اس کے لیے جو فوجی صلاحیتیوں  اور ساز وسامان کی ضرورت ہوتی ہے وہ تو بھارت کے پاس ہے ہی نہیں۔  بھارتی فوجی صرف باڈرز پر اپنی چھاؤنیوں سے پاکستان کے شہری اور آبادی والے علاقوں پر چھپ کر فائرنگ کر سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ پاکستانی افواج اس وقت پوری طرح ہوشیار اور چاق و چوبند ہیں اور بھارتی افواج کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی افواج پچھلے کئی سالوں سے حالت ِ جنگ میں ہے اور وہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل (ریٹائر ) پرویز مشرف نے بھارت میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستانی افواج جانتی ہے کہ اس کا دشمن کون ہے اور اس کی تعداد اور طاقت کیا ہے۔ اسی حساب سے پاکستانی افواج تیاری کرتی ہے اور بھارت اس غلط فہمی میں نہ رہے اور اپنے آپ کو عددی بنیاد پر زیادہ ہونے پر طاقتور تصور نہ کرے کیوں کہ پاکستان افواج کی تیکنیک اور تربیت بھارتی افواج سے بہت بہتر ہے۔  ہمیں باحیثیت مسلمان اور پاکستانی اپنی فوج پر فخر ہے اور یہ فخر غلط بھی نہیں کیوں کہ پاکستانی افواج دنیا کی سب سے بہترین افواج میں سر ِ فہرست ہے۔ ہمیں اپنی افواج کی بہادری ، شجاعت، جواں مردی، تربیت اور جذبہ ِ حب الواطنی پر بھروسہ ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ بھروسہ غلط نہیں۔   پاکستان تا قیامت قائم رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے اور تا قیامت قائم رہے گا۔ یہ میرا ایمان ہے ۔ یہ ہر پاکستانی کا ایمان ہے۔ پاکستان زندہ باد۔ پاک فوج پائندہ باد۔ پاک فوج کو دل کی گہرائیوں سے پورے پاکستان اور پاکستانیوں کی جانب سے سلام۔

محمد ندیم جمیل ۔ جامعہ کراچی 

صحافتی حقوق اور صحافتی فرائض


سِرل المیڈا نے 06 اکتوبر 2016 کو پاکستان کی فوجی قیادت اور جمہوری قیادت کے مابین ہونے والی میٹنگ کی تفصیلات ڈان اخبار میں اپنے کالم میں بیان کی۔ جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ کو بتایا گیا کہ مولانا مسعود اظہر ، جیش ِ محمد اور حقانی  نیٹ ورک کے خلاف کاروائیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سفارتی طور پر دنیا میں تنہا ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان کے دیرینہ دوست ملک چین کو بھی پاکستان کی مدد کرنے میں دشواری ہورہی ہے۔
یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ پاکستان سفارتی طور پر کسی قدر تنہا دیکھائی دیتا ہے اور اس کی ایک جھلک ہم سارک سربراہ کانفرس کے منسوخ ہونے میں دیکھ سکتے ہیں جب کہ دوسری طرف   16 اکتوبر کو ہونے والی برکس کانفرس جو بھارت کے شہر گوا میں ہوئی ، اس میں تمام ممبر ممالک کی شرکت بھی سب کے سامنے ہے۔ اس کانفرس میں بھی بھارت نے پاکستان کے خلاف ہزراہ سرائی کی اور نام لیے بغیر پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ قرار  دیا جبکہ چین چاہتے ہوئے بھی پاکستان کا دفاع کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آیا۔  چین اپنے  مفاد کے لیے ہی سہی لیکن پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ساکھ کچھ حد تک بچی ہوئی ہے۔ 
المیڈا کی یہ رپورٹ صحافت کے نقطہ ِ نظر سے غلط نہیں اور نہ ہی ڈان اخبار نے اس خبر کو شائع کرکے پاکستان کے قوانین کی کسی قسم کی خلاف ورزی کی ہے، اور نہ ہی اس خبر کی صداقت میں جھوٹ کی ملاوٹ نظر آتی ہے کیوں کہ ڈان اخبار اتنی بڑی خبر بغیر شائع ہی نہیں کرسکتا۔ جس کا اعتراف خود ڈان کے ایڈیٹر نے کیا ہے کہ  یہ خبر مصّدقہ ہے اور ڈان کے پاس اس کے نا قابلِ  تردید ثبوت موجود ہیں۔
پاکستان کے پریس اور پبلیکیشن آرڈیننس سیکشن 11 کے سب- سیکشن ا (اے) کے مطابق کوئی بھی صحافی اپنی خبر کے ذرائع بتانے کا پابند نہیں  اور نہ ہی حکومت ِ وقت اس کو خبر کے ذرائع بتانے کے لیےذبردستی  کرسکتی ہے،  جب تک کہ بات قومی سلامتی کی نہ ہو۔
کسی بھی صحافی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ملک کا وفادار ہو اور اپنے ملک کے مفادات کو ذاتی اور ادارتی مفادات پر ترجیح  دے۔  سِرل المیڈا کی یہ رپورٹ کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو اِس خبر کی اشاعت کا وقت غلط ہے۔ اِس وقت اِس قسم کی خبروں سے پاکستان سفارتی طور پر مزید تنہا ہوسکتا ہے اور پاکستان کے دشمن ملک خاص طور پر بھارت ، امریکہ اور اسرائیل اِس طرح کی خبروں کو بنیاد بنا کرپاکستان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پاکستان اِس وقت حالتِ جنگ میں ہے ، دشمن بھارت کی فوجیں باڈر پر کھڑی ہیں، امریکہ مسلسل "ڈو مور" کا مطالبہ کر رہا ہے، روس پاکستان کے مزائیلوں کے توڑ کے طور پر بھارت کو جدید اینٹی میزائل سِسٹم دے رہا ہے۔ اِس صورتِ حال میں صحافیوں خاص طور پر سِرل المیڈا جیسے صحافیوں کو پہلے پاکستان کا مفاد دیکھنا چاہیے ، کیوں کہ اِس قسم کی خبروں سے پاکستان کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو ، پاکستان کے دشمنوں کا فائدہ لازمی ہوگا۔   
 محمد  ندیم جمیل –  شعبہِ ذرائع ابلاغ -  جامعہ ِ کراچی

                19 اکتوبر 2016