جمعہ، 28 جولائی، 2017

منگو کوچوان

منگو کوچوان
انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی کی بارویں کی اردو کی کتاب میں ایک افسانہ ہے جس کا نام ہے نیا قانون ہے۔ یہ افسانہ سعادت حسن منٹو کا تحریر کردہ ہے۔ یہ افسانہ قیامِ پاکستان سے پہلے کے دور پر تحریر کیا گیا ہے اور ایک تانگہ کے کوچوان منگو کے گرد گھومتا ہے۔ اس افسانے میں منگو ایک ہوشیار تانگہ کوچوان ہوتا ہے جو کہ انگریزوں سے نفرت کرتا ہے مگر بے بس ہوتا ہے کیوں کہ ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی اور وہ ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا تھا۔ وہ اپنی سواریوں کی گفتگو کو بہت غور سے سنتا تھا اور ان کو اپنے الفاظ میں اپنے ساتھیوں کو سنا کر اپنا رعب قائم کرتا تھا۔ جب انڈین ایکٹ نافذ ہونے والا تھا تو اپنی سواریوں کی گفتگو میں اس ایکٹ کے بارے میں سن کر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ایک ایسا قانون آنے والا ہے جس سے انگریزوں کی طاقت اور مرتبے میں کمی آجائے گی۔ جس دن یہ قانون نافذ ہوتا ہے تو اپنے آپ کو انگریزوں کے برابر سمجھنا شروع ہوجاتا ہے اور ایک انگریز کی پٹائی کر دیتا ہے۔ جب پولیس اس کو پکڑ کر لے کر جارہی ہوتی ہے تو وہ چلا چلا کر نئے قانون کی دہائی دے رہا ہوتا ہے اور سب اس کو پاگل سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کہانی کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ ہم پر لکھی گئی ہے کیوں کہ ہم بھی منگو کوچوان جیسی حرکتیں کرتے ہیں۔ ہر تبدیلی کے وقت سمجھتے ہیں کہ کوئی انقلاب آگیا ہے اور منہ کی کھاتے ہیں۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر حکومت کی تبدیلی پر اسی طرح میٹھائی بانٹ کر اور بھنگڑے ڈال کر سمجھتے ہیں کہ کوئی بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور پھر کچھ ہی دنوں بعد نئی تبدیلی کو گالیاں اور کوسنے دے کر پرانی کو اچھا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ زیادہ دور نہ جاتے ہوئے آپ کو یاد ہوگا کہ بھٹو کے حکومت کے خاتمے اور ضیاء الحق کے حکومت پر قبضے پر بھی اسی طرح میٹھائی بانٹی گئی تھی اور خوشیاں منائی گئیں تھیں۔ بھٹو کی پھانسی پر بھی یہی ہوا تھا۔ پھر کچھ دنوں بعد ہی جب ضیاء صاحب کے جوہر نظر آنے لگے تو سب کی آنکھیں کھل گئیں۔ یعنی منگو کوچوان ثابت ہوئے۔ پھر جب بے نظیر صاحبہ پاکستان تشریف لائیں تو یہی عمل دھرایا گیا۔ جب پیپلز پارٹی نے حکومت سنبھالی تو دو سالوں میں ہی کرپٹ ثابت ہوئی اور جب پیپلز پارٹی کی حکومت گئی اور نواز شریف صاحب نے پہلی بار حکومت سنبھالی تو پھر سب نے میٹھائی بانٹی اور سمجھے کہ اب پاکستان کا بیڑا پار ہوجائے گا۔ کچھ ہی دنوں میں احساس ہوگیا کہ ہوا کیا ہے اور پھر سے منگو کوچوان ثآبت ہوئے۔ پھر نواز شریف صاحب کی حکومت گئی اور پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور پھر پیپلز پارٹی کی حکومت گئی اور نواز شریف کی حکومت آئی تو یہی عمل دھرایا گیا اور ہم بار بار منگو کوچوان ثابت ہوئے۔ جب پرویز مشرف صاحب نے نواز شریف اور بے نظیر صاحبہ کو سائیڈ لگا کر ملک سے مکمل طور پر جمہوریت کا خاتمہ کردیا تو پاکستانی عوام بہت خوش ہوئے اور سب کو یقین ہوگیا کہ پرویز مشرف کی صورت میں ہمیں نجات دہندہ مل گیا اور اب ہم کو سُپر پاور بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس دور میں ہمارا حشر ایسا ہوگیا کہ ہم دہشت گرد ملک کی فہرست میں ٹاپ پر پہنچ گئے اورقوم بدحالی کی انتہا پر۔ قوم نے سب سے زیادہ امیدیں اس وقت لگائیں جب ججز بحالی کی تحریک چلی۔ میڈیا نے اس تحریک کو عوام کے سامنے اس طرح پیش کیا جیسے کہ افتخار محمد چودھری کے بحال ہوتے ہی نہ جانے کتنا بڑا انقلاب آجائے گا۔ چودھری صاحب نے بحال ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیا۔ سب سجمھ رہے تھے کہ انصاف ہورہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ہوکیا رہا تھا اور قوم کو ایک بار پھر منگو کوچوان بنایا گیا۔ جب مشرف صاحب نے وردی اُتاری اور پھر صدارت سے استفا دیا تو یہی ہوا، جس طرح آج نواز شریف صاحب کے نااہل ثابت ہونے پر ہو رہا ہے۔
اس جگہ پر میں تاریخ کے طالبِ علم کی حیثیت سے ایک بات واضع کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ نواز شریف صاحب کو سب سے زیادہ نقصان ان کی پارٹی کے ناآقبت اندیش ساتھیوں نے پہنچایا ہے اور ابھی بھی وہ یہی کر رہے ہیں۔ ہر پریس کانفرنس میں نواز شریف صاحب کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان پر کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور ان کے دورِ حکومت میں کسی بھی اسکیم میں کرپشن نہیں ہوئی۔ ان لوگوں اور خود نواز شریف صاحب کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس کیس میں قرض اتارو، ملک سنوارو، گرین لائین بس، اورنج لائین ٹرین، موٹرویز، دانش اسکولز، سستی روٹی اسکیم، لیپ ٹاپ اسکیم، نندی پاور پروجیکٹ اور اس جیسی دوسری اسکیموں پر تو تحقیقات نہیں ہوئیں اور نہ ہی جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ ان اسکیموں کوزیرِ بحث لائے۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ انجام کیا ہوتا۔ جس طرح مسلم لیگ (نواز) کے نوآزمودہ اور درباری ٹائپ کے سیاست دان عدلیہ اور دوسرے اداروں کو چیخ چیخ کر ان معاملات پر تحقیق کرنے کا چیلنج دے رہے ہیں، لگتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان پر بھی جے آئی ٹی بنے۔

تو بات ہورہی تھی منگو کوچوان کی۔ جب سے جے آئی ٹی بنی ہے، اس وقت سے اپوزیشن اور خاص طور پر کچھ مخصوص ٹی وی اینکرز اور سیاست دان یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کرپشن صرف شریف فیملی اور مسلم لیگ (نواز) کے سیاست دانوں نے کی ہے اور باقی سب دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ آرٹیکل 62 اور 63 کی چھلنی سے بہت کم سیاست دان، کاروباری حضرات، بیوروکریٹ، سرکاری اداروں کے عہدے داران اور دوسرے لوگ نکل سکتے ہیں۔ آج بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس آرٹیکل پر پیپلز پارٹی کو بھی تحفضات ہیں۔ کل یہ آرٹیکلز ان کی پارٹی کے ارکان خاص طور پر ان کے والد صاحب کو بھی نا اہل ثابت کرسکتی ہیں۔ اب نواز شریف صاحب نا اہل ثابت ہوچکے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ کہیں خدانخواستہ ایک بار پھر پاکستانی قوم منگو کوچوان نہ ثابت ہو۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔  

                                          محمد ندیم جمیل
شعبہ ِ ذرائع ابلاغ ۔ جامعہ کراچی         

بدھ، 12 جولائی، 2017

تاریخ میں فتوحات

تاریخ میں فتوحات
یہ 1973ء کی بات ہے۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے کو تھی۔ ایسے میں ایک امریکی سنیٹر ایک اہم کام کے سلسلے میں اسرائیل آیا۔ وہ اسلحہ کمیٹی کا سربراہ تھا۔ اسے فوراً اسرائیل کی وزیراعظم ”گولڈہ مائیر“ کے پاس لے جایا گیا۔ گولڈہ مائیر نے ایک گھریلو عورت کی مانند سنیٹر کا استقبال کیا اور اسے اپنے کچن میں لے گئی۔ یہاں اس نے امریکی سنیٹر کو ایک چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل کے پاس کرسی پر بٹھا کر چولہے پر چائے کے لئے پانی رکھ دیا اور خود بھی وہیں آ بیٹھی۔ اس کے ساتھ اس نے طیاروں، میزائلوں اور توپوں کا سودا شروع کر دیا۔ ابھی بھاؤ تاؤ جاری تھا کہ اسے چائے پکنے کی خوشبو آئی۔ وہ خاموشی سے اٹھی اور چائے دو پیالیوں میں انڈیلی۔ ایک پیالی سنیٹر کے سامنے رکھ دی اور دوسری گیٹ پر کھڑے امریکی گارڈ کو تھما دی۔ پھر دوبارہ میز پر آ بیٹھی اور امریکی سنیٹر سے محو کلام ہو گئی۔ چند لمحوں کی گفت و شنید اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پا گئیں۔ اس دوران گولڈہ مائیر اٹھی، پیالیاں سمیٹیں اور انہیں دھو کر واپس سنیٹر کی طرف پلٹی اور بولی ”مجھے یہ سودا منظور ہے۔ آپ تحریری معاہدے کے لئے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھجوا دیجئے۔
یاد رہے کہ اسرائیل اس وقت اقتصادی بحران کا شکار تھا، مگر گولڈہ مائیر نے کتنی ”سادگی“ سے اسرائیل کی تاریخ میں اسلحے کی خریداری کا اتنا بڑا سودا کر ڈالا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ خود اسرائیلی کابینہ نے اس بھاری سودے کو رد کر دیا۔ اس کا موقف تھا، اس خریداری کے بعد اسرائیلی قوم کو برسوں تک دن میں ایک وقت کھانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ گولڈہ مائیر نے ارکان کابینہ کا موقف سنا اور کہا : ”آپ کا خدشہ درست ہے، لیکن اگر ہم یہ جنگ جیت گئے اور ہم نے عربوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا تو تاریخ ہمیں فاتح قرار دیگی اور جب تاریخ کسی قوم کو فاتح قرار دیتی ہے، تو وہ بھول جاتی ہے کہ جنگ کے دوران فاتح قوم نے کتنے انڈے کھائے تھے اور روزانہ کتنی بار کھانا کھایا تھا۔ اسکے دستر خوان پر شہد، مکھن، جیم تھا یا نہیں اور ان کے جوتوں میں کتنے سوراخ تھے یا ان کی تلواروں کے نیام پھٹے پرانے تھے۔ فاتح صرف فاتح ہوتا ہے۔“ گولڈہ مائیر کی دلیل میں وزن تھا، لہٰذا اسرائیلی کابینہ کو اس سودے کی منظوری دینا پڑی۔ آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ گولڈہ مائیر کا اقدام درست تھا اور پھر دنیا نے دیکھا، اسی اسلحے اور جہازوں سے یہودی عربوں کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے۔ جنگ کے ایک عرصہ بعد واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے گولڈہ مائیر کا انٹرویو لیا اور سوال کیا: ”امریکی اسلحہ خریدنے کے لئے آپ کے ذہن میں جو دلیل تھی، وہ فوراً آپ کے ذہن میں آئی تھی، یا پہلے سے حکمت عملی تیار کر رکھی تھی؟“گولڈہ مائیر نے جو جواب دیا وہ چونکا دینے والا تھا۔ وہ بولی :”میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں (مسلمانوں) کے نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے لیا تھا، میں جب طالبہ تھی تو مذاہب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ انہی دنوں میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات پڑھی۔ اس کتاب میں مصنف نے ایک جگہ لکھا تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو ان کے گھر میں اتنی رقم نہیں تھی کہ چراغ جلانے کے لئے تیل خریدا جا سکے، لہٰذا ان کی اہلیہ (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے ان کی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا، لیکن اس وقت بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کی دیواروں پر نو تلواریں لٹک رہی تھیں۔ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے سوچا کہ دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت کے بارے میں جانتے ہوں گے لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح ہیں، یہ بات پوری دنیا جانتی ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے، پختہ مکانوں کی بجائے خیموں میں زندگی بسر کرنا پڑے، تو بھی اسلحہ خریدیں گے، خود کو مضبوط ثابت کریں گے اور فاتح کا اعزاز پائیں گے۔“
گولڈہ مائیر نے اس حقیقت سے تو پردہ اٹھایا، مگر ساتھ ہی انٹرویو نگار سے درخواست کی اسے ”آف دی ریکارڈ“ رکھا جائے اور شائع نہ کیا جائے۔ وجہ یہ تھی، مسلمانوں کے نبی کا نام لینے سے جہاں اس کی قوم اس کے خلاف ہو سکتی ہے، وہاں دنیا میں مسلمانوں کے موقف کو تقویت ملے گی۔ چنانچہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے یہ واقعہ حذف کر دیا۔ وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا، یہاں تک کہ گولڈہ مائیر انتقال کر گئی اور وہ انٹرویو نگار بھی عملی صحافت سے الگ ہو گیا۔ اس دوران ایک اور نامہ نگار، امریکہ کے بیس بڑے نامہ نگاروں کے انٹرویو لینے میں مصروف تھا۔ اس سلسلے میں وہ اسی نامہ نگار کا انٹرویو لینے لگا جس نے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے کی حیثیت سے گولڈہ مائیر کا انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو میں اس نے گولڈہ مائیر کا واقعہ بیان کر دیا، جو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھا۔ اس نے کہا کہ اب یہ واقعہ بیان کرنے میں اسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ گولڈہ مائیر کا انٹرویو کرنے والے نے مزید کہا: ”میں نے اس واقعے کے بعد جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا، تو میں عرب بدوؤں کی جنگی حکمت عملیاں دیکھ کر حیران رہ گیا، کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ طارق بن زیاد جس نے جبرالٹر (جبل الطارق) کے راستے اسپین فتح کیا تھا، اس کی فوج کے آدھے سے زیادہ مجاہدوں کے پاس پورا لباس نہیں تھا۔ وہ بہترّ بہترّ گھنٹے ایک چھاگل پانی اور سوکھی روٹی کے چند ٹکڑوں پر گزارا کرتے تھے۔ یہ وہ موقع تھا، جب گولڈہ مائیر کا انٹرویو نگار قائل ہو گیا کہ ”تاریخ فتوحات گنتی ہے، دستر خوان پر پڑے انڈے، جیم اور مکھن نہیں۔“
اس واقعے کو بتانے کا مقصد اسرائیل کی تعریف نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آج دنیا کے جو ممالک ترقی کر رہے ہیں اور ہم ان کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، وہ انھوں نے مسلمانوں سے سیکھی ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں مسلمانوں کے پاس محلات اور خوبصورت گھر نہیں تھے مگر ان کے سامنے دنیا کی کوئی بھی فوج ٹِک نہیں پائی۔ آج بھی وظیفے دینے کا جو طریقہ اس دور میں رائج تھا، وہ بیشتر غیر اسلامی ممالک میں موجود ہے۔ اسی طریقے کا ایک عبرت ناک واقعہ یہ بھی ہے۔   

آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کے وزیر ابنِ علقمی نے ہلاکو خان کے ساتھ ساز باز کرکے خلیفہ کو مشورہ دیا کہ علم و روحانیت کے مرکز بغداد میں تین لاکھ فوج کی کیا ضرورت ہے؟؟؟ یہ فوج خزانے پر ایک غیر ضروری بوجھ کی طرح چنانچہ چند ہزار سپاہیوں کو چھوڑ کر باقی فوج کو فارغ کر دیا گیا۔
پھر دنیا نے دیکھا اسی علم و روحانیت کے مرکز پر 1258ء میں ہلاکو خان نے حملہ کیا اور اس شہر کے بیس لاکھ انسانوں میں سے صرف چار لاکھ انسان اپنی جانیں بچا کر بھاگ سکے۔ شہر کو آگ لگا دی گئی تاکہ بچے کھچے مسلمان بچ نہ سکیں۔ وہ تاریخِ اسلام کا کتنا عبرت ناک منظر تھا جب مستعصم باللہ ، آ ہنی زنجیروں اور بیڑویوں میں جکڑا ، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھا نا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے اور جواہرات رکھ دئیے۔ پھر معتصم سے کہا۔: ’’ جو سونا چاندی تم جمع کرتے تھے اُسے کھاؤ!‘‘۔ بغداد کا تاج دار بے چارگی و بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا، بولا: ’’ میں سونا کیسے کھاؤں؟ ‘‘ ہلاکو نے فوراً کہا ’’ پھر تم نے یہ سونا چاندی جمع کیوں کیا تھا؟‘‘ ۔ وہ مسلمان جسے اُسکا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کیلئے ترغیب دیتا تھا، کچھ جواب نہ دے سکا۔ ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کیا: ’’تم نے اِن جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہ بنائے ؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی، تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟‘‘۔ خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا۔ ’’ اللہ کی یہی مرضی تھی ‘‘۔    ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا: ’’ پھر جو تمہارے ساتھ ہونیوالا ہے ، وہ بھی خدا کی مرضی ہوگی۔‘‘۔    پھر ہلاکو خان نے مستعصم باللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا، بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔ ہلاکو نے کہا ’’ آج میں نے بغداد کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اَب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔‘‘
عبرت کا ایک سبق برِصغیرکی بھی ہے کہ مسلمانوں نے اتنے بڑے اور تمام نعمتوں سے مالامال اس خطے پر 1000 سال حکومت کی، لیکن حاصل کچھ نہیں کیا۔ جب یورپ کے چپے چپے پر تجربہ گاہیں اور تحقیقی مراکز قائم ہو رہے تھے، تب یہاں مسلمان حکمران تاج محل، ہرن مینار، گھوڑا مینار اور شاہی محل تعمیر کروا رہے تھے۔ جب مغرب میں علوم و فنون کی ترقی کے لیے لائبریریاں، کالج اور جامعات تعمیر کر رہے تھے، تب یہاں اس عرصے میں ایک بھی کالج، جامعہ یا جدید علوم کے لیے درسگاہ تعمیر کرنے کا خیال تک نہ تھا۔ جب وہاں نئی نئی ایجادات (جن میں بیشتر مسلمانوں کی ایجادات کی نقول تھیں) پر تجربات کیے جارہے تھے ہمارے یہاں تان سین جیسے گویے نئے نئے راگ ایجاد کر رہے تھے۔ جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرنگالیوں کے بحری بیڑے بر صغیر کی بندرگاہوں پر اس سونے کی چڑیا کو اپنے بس میں کرنے کے لیے دستک دے رہے تھے، ہمارے اَرباب و اختیار شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدہوش پڑے تھے۔ تن آسانی، عیش کوشی اور عیش پسندی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہمارا بوسیدہ اور دیمک زدہ نظام بکھر گیا، کیونکہ تاریخ کو اِس بات سے کو ئی غرض نہیں ہوئی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی؟ شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑئے ہیں یا نہیں ؟ درباروں میں خوشامدیوں ، مراثیوں ، طبلہ نوازوں اور وظیفہ خوار شاعروں کا جھرمٹ ہے یا نہیں ؟ یا د رکھیے! تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ عُذر قبو ل نہیں کرتی۔
جب تک مسلمانوں نے اپنے آپ کو عیاشیوں سے دور رکھا، ترقی حاصل کرتے گئے اور جب ان عیاشیوں میں پڑے، ذلیل و خوار ہوگئے۔
بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
ع         میں تجھ کو بتاتا ہوں   تقدیرِ امم  کیا ہے
            شمشیرِ و سناں اوّل،  طاؤس و رباب آخر
میخانہِ  یورپ  کے  دستور  نرالے   ہیں

لاتے ہیں سرور اؤل، دیتے ہیں شراب آخر

منگل، 4 جولائی، 2017

پانامہ کیس کا فیصلہ

پانامہ کیس کا فیصلہ
پانامہ کیس کا فیصلہ آنے والا ہے۔ اس کا فیصلہ کسی کے حق میں آئے یہ کسی کے خلاف۔، کچھ نہیں ہونے والا۔ زیادہ دور مت جائیں، افتخار محمد چودہری والے معاملے میں بھی اسی طرح کا شور تھا کہ جسیے اس کے بحال ہوتے ہی پاکستان میں نہ جانے کتنی تبدیلی آجائے گی۔ کچھ نہیں ہوا، ہاں ہوا یہ کہ اگلے پانچ سالوں تک پیپلز پارٹی کا نام نہاد احتساب ہوتا رہا اور جاتے جاتے چودہری صاحب نے دھاندلی میں مدد کرکے نواز شریف کو حکومت کا تحفہ دیا جوکہ ان کی بحالی کی تحریک میں مدد کا انعام تھا۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو جس وقت جنرل ایوب خان نجات دہندہ بن کر ملک پر قابص ہوا تو ایسا لگ رہا تھا کہ اب پاکستان سپر پاور بن جائے گا۔ ہوا یہ کہ ملک مزید پیچھے کی طرف چلا گیا۔ ایوب خان کی پالیسی کی وجہ سے پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ پھر بھٹو نجات دہندہ بن کر ملک میں پہلی جمہوری حکومت کا وزیر اعظم بن کر آیا اور ملک کا معاشی جنازہ نکال دیا۔ اس کو پھانسی کی سزا ہوئی جس کو 30 سالوں بعد عدالتی قتل قرار دے دیا گیا۔ مردِ مومن، مردِ حق، ضیاء الحق نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی اور ملک کا بیڑا غرق کردیا۔ ملک کو افقان جنگ میں بھڑا کر ملک میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو متارف کروایا۔ ہم آج تک اس کی سزا بُھگت رہے ہیں۔ پھر بے نظیر اور نواز شریف ملک کو لوٹنے آئے اور لوٹ کو کنگال کردیا۔ مشرف نے جب ملک پر قبصہ کیا تو سب نے سوچا کہ شائد اب ملک سنور جائے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ یہ ساری کہانی بتانے کا مقصد ہے کہ ان تمام لوگوں کے اقتدار میں آنے پر لوگ اسی طرح خوش تھے اور اُس وقت کو پاکستان کے لیے نیا موڑ قرار دے رہے تھے۔ ہوا کچھ نہیں۔ جب مشرف اقتدار سے علیحدہ ہوا تو ایسا لگا کہ اب ملک کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کیا ہوا؟ کچھ نہیں۔
اگر فیصلہ نواز شریف کے خلاف آتا ہے تو یہ نواز شریف کی سیاسی شہادت اور اس کے تمام جرم سے رہائی ہوگی ۔ کیوں کہ عوام الناس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت پانامہ کیس میں نواز شریف کا جرم یہ ہے کہ وہ حسن، حسین اور مریم کا باپ ہے، بس۔ اس پر یا اس کی حکومت پر کوئی کرپشن کا کیس نہیں ہے۔ اس کی حکومت پر کرپشن ثابت نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے۔ نواز شریف ایک کاروباری شخص ہے اور اس کو غیر قانونی کام قانونی ڈھنگ سے کرنا آتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہ نا اہل ہوجائے گا اور اس کی جگہ اس کے خاندان کا کوئی دوسرا شخص لے لے گا۔ 
جس ملک میں سرکاری دفاتر میں بھنگی سے لے کر ڈائریکٹر تک سب کرپشن کرتے ہوں۔ پہلی کلاس کے طالبِ علم سے پی ایچ ڈی کرنے والے طالبِ علم تک سب نقل کرکے ڈگری حاصل کرنا چاہتے ہوں، دودھ کے نام پر کیمکل بھرا زہر، سبزی اور پھلوں کے نام پر سڑا ہوا کچرا، اناج کے نام پر کنکر پتھر، دواوں کے نام پر زہر، کولڈ ڈرنک کے نام پر جانوروں کو پلانے والی بعد المیاد دوائیاں، حلال جانوروں کے نام پر گدھوں اور کتوں کا گوشت بیچا جارہا ہو۔ جہاں سڑک پر چلنے والا پیدل سے لے کر کروڑوں کی گاڑیوں میں سفر کرنے والے امیر زادے اور ایک چھوٹے دوکاندار سے لے کر ارب پتی تاجرسب کرپٹ ہوں۔ جہاں تحواروں پر لوٹ کا بازار گرم ہو، جہاں پولیس، عدالت، پٹواری خریدے جاسکتے ہوں، جہاں اقتدار میں آنے کے لیے ارکانِ اسمبلی اور سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے لیے جاہل لوگ ڈگریاں خریدیں اور جرم ثابت ہونے پر کوئی سزا نہ ہو۔ جہاں ایک قومی اسمبلی رکن کا بھائی ایک ڈیوٹی دیتے پولیس کانسٹبل کو اپنی گاڑی سے کچل کر رعب سے عدالت آئے، جیسے اس نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہو۔ اس ملک میں اس قسم کی چھوٹی سزا سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ یہاں تو فرانس اور چین جیسا انقلاب چاہیے۔ میری بات سے بہت سارے لوگ اختلاف کریں گے، مگرجب جہاز میں کوئی ایک سوراخ ہوتو اس کی مرمت کی جاتی ہے، لیکن اگر ہر تختے میں سوراخ ہو توپورے جہار کی مرمت کی جاتی ہے۔ دودھ میں نواز شریف یا آصف ذرداری پانی اور زہر نہیں ملاتا، دواؤں کے نام پر نقلی اور بعد المیاد دوائیں یہ لوگ نہیں بناتے اور فروخت کرتے۔ جب یوسف رضا گیلانی کو سزا ہوئی تو کون سا ملک ترقی کر گیا، اس سے بڑا کرپٹ شخص وزیر ِ اعظم بن گیا۔ مسئلہ کسی شخص میں نہیں، سِسٹم میں ہے۔ اگر راہ سے چلتے کسی شخص کو پکڑ کر وزیرِ اعظم بنا دیا جائے تو وہ بھی کرپشن کرے گا کیوں کہ سِسٹم خراب ہے۔ ایک شخص کو نشانِ عبرت بنانے سے سب کچھ صحیح نہیں ہوگا۔ سِسٹم کو صحیح کرنا ہوگا۔ بد قسمتی سے اس ملک میں ہر شخص کرپشن کرنا چاہتا ہے۔ بس موقع نہیں ملتا۔ جتنا ملتا ہے، اتنا کرلیتا ہے۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ اگر آپ کو کوئی بڑا عہدہ مل جائے اور آپ کو ملازمت دینے کی اجازت ہوتو آپ سب سے پہلے کس کو ملازمت دیں گے؟ اپنے جاننے والوں کو یا حقدارکو؟
 اس کے مقابلے میں پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 لگا، جس کی کم سے کم سزا پھانسی ہے، الطاف حسین پر ملک سے غداری اور را سے مدد لینے اور اس کی مدد کرنے کا الزام ثابت ہوگیا۔ آج دونوں ملک سے باہر بیٹھ کر سیاست کررہے ہیں۔ کسی کو شوکت عزیز اور ڈاکٹر عشرت العباد یاد ہیں؟ کیا وہ مجرم نہیں؟ ان سب کا کیا بگڑا؟ کچھ نہیں۔ نواز شریف کا بھی کچھ نہیں بگڑے گا۔ صرف اس کے تمام جرائم پر پردہ پڑ جائے گا اور اگلے پانچ سالوں تک اس کے حواری ہر چینل پر بیٹھ کر کہتے رہیں گے کہ اگر نواز شریف کو سزا نہ ہوتی تو یہ ہوجاتا، وہ ہوجاتا۔ جس طرح آج کہتے ہیں کہ اگر 1999 میں حکومت نہ جاتی تو آج پاکستان سپر پاور ہوتا۔ جس طرح جن رینٹل پاورز کو شریف برادران کرپشن کے پاور اسٹیشنز کہا کرتے تھے، آج ان ہی رینٹل پاورز کے محتاج ہیں اور پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ ہم اُس وقت صحیح تھے اور نواز شریف غلط۔
اگر نواز شریف ملک کا وزیرِ اعظم نہیں ہوگا تو کون ہوگا؟ کسی کے پاس کوئی نعم البدل ہے؟ عمران خان یا بلاول ذرداری؟ ذرا غور تو کریں کہ کہ جو ایک صوبہ صحیح نہیں چلا سکتے وہ ملک کیا چلائیں گے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (نواز) کے دور میں جو ترقی پنجاب نے حاصل کی ہے، سندھ اور خیبر پختون خواہ نے حاصل نہیں کی، چاہے مرکز میں مسلم لیگ (نواز) کی حکومت مرکز میں ہو یا نہیں ہو۔
خدارا سب اپنے اپنے کام کریں اور اس فیصلے کو ایک عام فیصلے کی طرح لیں۔ اس فیصلے کا کچھ نہیں ہونے والا۔
محمد ندیم جمیل
جامعہ کراچی –
 04-07-2017



اتوار، 2 جولائی، 2017

پانامہ کیس


پانامہ کیس کا آغازاس وقت ہوتا ہے جب 3 اپریل 2016 کو انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویٹیگیٹیو جرنلسٹس (ICIJ) نامی ایک تنظیم پانامہ پیپرز کے نام سے دنیا بھر کے آف شور کمپنیوں کے راز افشاء کرتی ہے۔ ان کمپنیوں میں پاکستان کے موجودہ وزیر ِ اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کے بچوں کے نام بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان کمپنیوں میں سے چار آف شور کمپنیوں میں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز کے نام بلواسطہ اور بلاواسطہ شامل ہیں۔ یہ کیس سپریم کورٹ میں پانچ ججوں کے بنچ میں چلتا ہے اورایک سال کے بعد 20 اپریل 2017 کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آتا ہے جو کہ کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ 2 جج حضرات کے مطابق موجوہ وزیرِ اعظم نااہل ہیں اور انھوں نے سچ کو چھپانے کی کوشش کی ہے جبکہ 3 جج صاحبان کا فیصلہ ہوتا ہے کہ پیش کیے گیے ثبوت ناکافی ہیں اور اس سلسلے میں جوئینٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنا کر مزید تحقیقات کروانی چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک جوائینٹ انویسٹیگیسن ٹیم بنائی جاتی ہے۔ جو کہ سپریم کورٹ کو دو مہینوں میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ دے گی۔ واضح رہےکہ اس ٹیم کی رپورٹ حتمی نہیں ہوگی اور اس پر سپریم کورٹ میں کیس بھی کیا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر یہ شریف خاندان کے خلاف ہوتو شریف خاندان اس کو تسلیم کرنے سے انکار کرسکتے ہیں اور ان کے ممبران پر اعلیٰ عدلیہ میں سوال جواب بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر کیس شریف فیملی کے حق میں آیا تو مخالفین یہی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ یہ تو ہے اس کیس کا بیک گراونڈ اور تھوڑا سا تعارف۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہوکیا رہا ہے۔ پانامہ پیپرز کے افشاء ہونے سے اب تک شریف فیملی کے حق میں جتنا شریف فیملی کے لوگ نہیں بولے، اس سے کئی گنا زیادہ وفاقی اور پنجاب کے وزراء بول چکے ہںن۔ وہ کہیں بھی ہوں، کسی بھی تقریب میں، یہاں تک کہ کسی کے مرنے پر اس کے گھر تعزیت کرنے گئے ہوں،اس موضوع پر شریف فیملی کی صفائی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس مقدمے کا سارا خرچ حکومتِ پاکستان اٹھا رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مقدمہ شریف فیملی کے خلاف نہیں، پاکستان کے خلاف چل رہا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی پر بھی کھلے الفاظوں میں تنقید کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ (نواز) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے تو حد ہی پار کردی۔ ایک تقریب کے دوران جے آئی ٹی کے ارکان اور جج حضرات کو دھمکیاں دیں اور ان کی زندگی عذاب کرنے اور ان کے بچوں کو چین سے جینے نہ دینے کی پیشن گوئی بھی کردی۔ 
پوری دنیا میں پانامہ پیپرز میں موجود لوگوں پر کیس چلے اور ان میں سے بہت سے لوگ اپنے عہدے سے مستفی بھی ہوئے۔ اب پانامہ لیک کا ہنگامہ پوری دنیا سے ختم ہوچکا ہے، مگر پاکستان میں ابھی بھی پہلے روز کی طرح ہیڈ لائینز میں موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پاس اور کوئی کام ہی نہیں ہے سوائے اس پانامہ لیک کے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نواز شریف اور شریف خاندان ذاتی حیثیت سے اس مقدمے کا سامنا کرتا اور فیصلے کو تسلیم کرتا یا نواز شریف اپنے عہدے سے استیفا دے کر اس مقدمے کی پیروی کرتے۔ اس مقدمے میں کسی بھی طرح حکومت ِ پاکستان فریق نہیں ہے، اس لیے حکومتی مشینری اور وزراء کی اس مقدمے میں شمولیت نہیں ہونی چاہیے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پانامہ پیپرز میں تمام وزراء اور حکومت کے تمام لوگوں کے نام آئے ہیں اور حکومتِ پاکستان پر الزام لگایا گیا ہے۔ مقدمے میں اگر نواز شریف صاحب کو جے آئی ٹی بلاتی تو وہ اپنی ذاتی حیثیت میں اکیلے آتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ بحیثیت وزیرِ اعظم پاکستان کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے جو کہ غلط ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی حسن نواز اور حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تووہ پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ آئے اور ان کے ساتھ وفاقی وزراء کا بھی تھے جو کہ نہایت ہی غلط اور جے آئی ٹی پر دباؤ ڈالنے کے جیسا ہے۔  
آج بھی وزیرِ ریلوے جناب سعد رفیق صاحب نے کھل کر جے آئی ٹی پر تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پانامہ پیپرز پاکستان کے خلاف عالمی سازش کا حصہ ہے۔ گویا اگر کل کو نواز شریف پاکستان کے وزیرِ اعظم نہیں رہے تو خدا نخواستہ پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ پاکستان کسی کی جاگیر نہیں ہے اور نہ ہی جمہوریت کسی ایک سیاسی جماعت کے وجود سے وابسطہ ہے۔ خواجہ سعد رفیق صاحب یہ بھول رہے ہیں کہ یہی وہ جمہوریت کے علم بردار نواز شریف صاحب ہیں، جو 1999 میں جیل میں قیدِ تنہائی اور موت کے خوف سے پرویز مشرف سے معائدہ کرکے ملک سے بھاگ چکے ہیں۔ یہی وہ نواز شریف ہیں، جنہوں نے لندن میں میثاقِ جمہوریت کے نام سے ایک معائدہ پاکستان پیپلز پارٹی سے کرتے ہیں اور بعد میں ان کے وزراء اور بھائی شہباز شریف پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین آصف علی ذرداری کو الٹا لٹکانے اور سڑکوں پر گھسیٹ گھسیٹ کر سوئس بنکوں سے پیسے واپس لانے کی باتیں کرتے ہیں۔ جب اقتدار میں آتے ہیں تو پرویز مشرف کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ ملک سے باہر جانے دیتے ہیں۔ شائد خواجہ صاحب کو پاکستانی قوم کی یاداشت پر شک ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی باتیں کرکے وہ جے آئ ٹی اور اعلیٰ عدالت پر دباؤ قائم کر کے اپنی مرضی کا فیصلہ کرواسکتے ہیں۔ 
اس وقت پاکستان نہایت ہی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ملک کے اندر اور باہر دشمن گھات لگا کر بیٹھے ہیں کہ ایک چھوٹی سی غلطی کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو نقصان پہنچا سکیں۔ افغانستان، ایران، بھارت، اسرائیل، روس اور امریکہ چاہے آپس میں کتنے ہی اختلافات رکھیں، پاکستان کے معاملے میں ان کی سوچ ایک ہے اور وہ یہ کہ اس ملک کو ترقی نہیں کرنے دینا۔ بین القوامی طور پر اس وقت پاکستان کے دوستوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ جبکہ دشمن بہت زیادہ ہیں۔ اس وقت ہمیں ذات کا نہیں، ملک کا سوچنا چاہیے۔ عرب ممالک میں شام اور ترکی جوکہ پاکستان کی مدد کرسکتے ہیں، خود ہی مشکلات کا شکار ہیں۔ سعودی عرب نے اپنی پالیسیاں تبدیل کر لیں ہیں اور اب وہ اسلامی ممالک سے زیادہ غیر اسلامی ممالک بھارت، امریکا اور فرانس جیسے ممالک کے ساتھ ہے۔ بہت جلد آپ یہ خبر سنیں گے کہ اسرائیل نے اپنا سفارت خانہ سعودی عرب میں کھول لیا ہے یا سعودی عرب نے اپنا سفارت خانہ اسرائیل میں۔ اب وہ پاکستان کا دوست نہیں رہا۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم اپنی فارن پالیسیوں کی وجہ سے آج دنیا میں وہ مقام اور عزت نہیں رکھتے، جس کے ہم حقدار ہیں۔ چین بھی اپنے مفادات کے لیے ہماری مدد کر رہا ہے اور اس کی وجہ ہماری جغرافیائی پوزیشن ہے۔ دنیا میں کسی بھی معاملے میں دنیا ہمارا ساتھ نہیں دے رہی۔ ہم صرف تسلی کے حقدار ہیں۔ ہمارا تجارتی خسارہ بہت بڑھ چکا ہے۔ ہماری کوئی فارن پالیسی نہیں ہے۔ ہم اپنی پالیسی بنانے کے لیے ان ممالک کے محتاج ہیں جو کہ ہمارے دشمن ہیں۔ تمام معاملات کو چھوڑ کرپاکستان انتظامیہ کی پوری مشینری شریف خاندان کو اس پانامہ لیک سے بچانے میں اپنی طاقت اور وقت صرف کر رہی ہے۔ 


محمد ندیم جمیل
جامعہ کراچی 2/7/2017