تاریخ
میں فتوحات
یہ
1973ء کی بات ہے۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے کو تھی۔ ایسے میں ایک
امریکی سنیٹر ایک اہم کام کے سلسلے میں اسرائیل آیا۔ وہ اسلحہ کمیٹی کا سربراہ
تھا۔ اسے فوراً اسرائیل کی وزیراعظم ”گولڈہ مائیر“ کے پاس لے جایا گیا۔ گولڈہ
مائیر نے ایک گھریلو عورت کی مانند سنیٹر کا استقبال کیا اور اسے اپنے کچن میں لے
گئی۔ یہاں اس نے امریکی سنیٹر کو ایک چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل کے پاس کرسی پر بٹھا کر
چولہے پر چائے کے لئے پانی رکھ دیا اور خود بھی وہیں آ بیٹھی۔ اس کے ساتھ اس نے
طیاروں، میزائلوں اور توپوں کا سودا شروع کر دیا۔ ابھی بھاؤ تاؤ جاری تھا کہ اسے
چائے پکنے کی خوشبو آئی۔ وہ خاموشی سے اٹھی اور چائے دو پیالیوں میں انڈیلی۔ ایک
پیالی سنیٹر کے سامنے رکھ دی اور دوسری گیٹ پر کھڑے امریکی گارڈ کو تھما دی۔ پھر
دوبارہ میز پر آ بیٹھی اور امریکی سنیٹر سے محو کلام ہو گئی۔ چند لمحوں کی گفت و
شنید اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پا گئیں۔ اس دوران گولڈہ مائیر اٹھی، پیالیاں
سمیٹیں اور انہیں دھو کر واپس سنیٹر کی طرف پلٹی اور بولی ”مجھے یہ سودا منظور ہے۔
آپ تحریری معاہدے کے لئے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھجوا دیجئے۔
یاد
رہے کہ اسرائیل اس وقت اقتصادی بحران کا شکار تھا، مگر گولڈہ مائیر نے کتنی
”سادگی“ سے اسرائیل کی تاریخ میں اسلحے کی خریداری کا اتنا بڑا سودا کر ڈالا۔ حیرت
کی بات یہ ہے کہ خود اسرائیلی کابینہ نے اس بھاری سودے کو رد کر دیا۔ اس کا موقف
تھا، اس خریداری کے بعد اسرائیلی قوم کو برسوں تک دن میں ایک وقت کھانے پر اکتفا
کرنا پڑے گا۔ گولڈہ مائیر نے ارکان کابینہ کا موقف سنا اور کہا : ”آپ کا خدشہ درست
ہے، لیکن اگر ہم یہ جنگ جیت گئے اور ہم نے عربوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا تو
تاریخ ہمیں فاتح قرار دیگی اور جب تاریخ کسی قوم کو فاتح قرار دیتی ہے، تو وہ بھول
جاتی ہے کہ جنگ کے دوران فاتح قوم نے کتنے انڈے کھائے تھے اور روزانہ کتنی بار
کھانا کھایا تھا۔ اسکے دستر خوان پر شہد، مکھن، جیم تھا یا نہیں اور ان کے جوتوں
میں کتنے سوراخ تھے یا ان کی تلواروں کے نیام پھٹے پرانے تھے۔ فاتح صرف فاتح ہوتا
ہے۔“ گولڈہ مائیر کی دلیل میں وزن تھا، لہٰذا اسرائیلی کابینہ کو اس سودے کی
منظوری دینا پڑی۔ آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ گولڈہ مائیر کا اقدام درست تھا
اور پھر دنیا نے دیکھا، اسی اسلحے اور جہازوں سے یہودی عربوں کے دروازوں پر دستک
دے رہے تھے۔ جنگ کے ایک عرصہ بعد واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے گولڈہ مائیر کا
انٹرویو لیا اور سوال کیا: ”امریکی اسلحہ خریدنے کے لئے آپ کے ذہن میں جو دلیل
تھی، وہ فوراً آپ کے ذہن میں آئی تھی، یا پہلے سے حکمت عملی تیار کر رکھی
تھی؟“گولڈہ مائیر نے جو جواب دیا وہ چونکا دینے والا تھا۔ وہ بولی :”میں نے یہ
استدلال اپنے دشمنوں (مسلمانوں) کے نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) سے لیا تھا، میں
جب طالبہ تھی تو مذاہب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ انہی دنوں میں نے محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح حیات پڑھی۔ اس کتاب میں مصنف نے ایک جگہ لکھا تھا کہ
جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو ان کے گھر میں اتنی رقم نہیں تھی کہ
چراغ جلانے کے لئے تیل خریدا جا سکے، لہٰذا ان کی اہلیہ (حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا) نے ان کی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا، لیکن اس وقت بھی محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے حجرے کی دیواروں پر نو تلواریں لٹک رہی تھیں۔ میں نے جب یہ
واقعہ پڑھا تو میں نے سوچا کہ دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست
کی کمزور اقتصادی حالت کے بارے میں جانتے ہوں گے لیکن مسلمان آدھی دنیا کے فاتح
ہیں، یہ بات پوری دنیا جانتی ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مجھے اور میری قوم
کو برسوں بھوکا رہنا پڑے، پختہ مکانوں کی بجائے خیموں میں زندگی بسر کرنا پڑے، تو
بھی اسلحہ خریدیں گے، خود کو مضبوط ثابت کریں گے اور فاتح کا اعزاز پائیں گے۔“
گولڈہ
مائیر نے اس حقیقت سے تو پردہ اٹھایا، مگر ساتھ ہی انٹرویو نگار سے درخواست کی اسے
”آف دی ریکارڈ“ رکھا جائے اور شائع نہ کیا جائے۔ وجہ یہ تھی، مسلمانوں کے نبی کا
نام لینے سے جہاں اس کی قوم اس کے خلاف ہو سکتی ہے، وہاں دنیا میں مسلمانوں کے
موقف کو تقویت ملے گی۔ چنانچہ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے یہ واقعہ حذف کر دیا۔
وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا، یہاں تک کہ گولڈہ مائیر انتقال کر گئی اور وہ انٹرویو
نگار بھی عملی صحافت سے الگ ہو گیا۔ اس دوران ایک اور نامہ نگار، امریکہ کے بیس
بڑے نامہ نگاروں کے انٹرویو لینے میں مصروف تھا۔ اس سلسلے میں وہ اسی نامہ نگار کا
انٹرویو لینے لگا جس نے واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے کی حیثیت سے گولڈہ مائیر کا
انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو میں اس نے گولڈہ مائیر کا واقعہ بیان کر دیا، جو سیرت
نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق تھا۔ اس نے کہا کہ اب یہ واقعہ بیان کرنے میں
اسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی ہے۔ گولڈہ مائیر کا انٹرویو کرنے والے نے مزید
کہا: ”میں نے اس واقعے کے بعد جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا، تو میں عرب بدوؤں کی
جنگی حکمت عملیاں دیکھ کر حیران رہ گیا، کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ طارق بن زیاد
جس نے جبرالٹر (جبل الطارق) کے راستے اسپین فتح کیا تھا، اس کی فوج کے آدھے سے زیادہ
مجاہدوں کے پاس پورا لباس نہیں تھا۔ وہ بہترّ بہترّ گھنٹے ایک چھاگل پانی اور
سوکھی روٹی کے چند ٹکڑوں پر گزارا کرتے تھے۔ یہ وہ موقع تھا، جب گولڈہ مائیر کا
انٹرویو نگار قائل ہو گیا کہ ”تاریخ فتوحات گنتی ہے، دستر خوان پر پڑے انڈے، جیم
اور مکھن نہیں۔“
اس
واقعے کو بتانے کا مقصد اسرائیل کی تعریف نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ آج دنیا
کے جو ممالک ترقی کر رہے ہیں اور ہم ان کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، وہ انھوں نے
مسلمانوں سے سیکھی ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال سب کے
سامنے ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں مسلمانوں کے پاس محلات اور
خوبصورت گھر نہیں تھے مگر ان کے سامنے دنیا کی کوئی بھی فوج ٹِک نہیں پائی۔ آج بھی
وظیفے دینے کا جو طریقہ اس دور میں رائج تھا، وہ بیشتر غیر اسلامی ممالک میں موجود
ہے۔ اسی طریقے کا ایک عبرت ناک واقعہ یہ بھی ہے۔
آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کے وزیر ابنِ علقمی نے ہلاکو خان کے ساتھ ساز باز کرکے خلیفہ کو مشورہ دیا کہ علم و روحانیت کے مرکز بغداد میں تین لاکھ فوج کی کیا ضرورت ہے؟؟؟ یہ فوج خزانے پر ایک غیر ضروری بوجھ کی طرح چنانچہ چند ہزار سپاہیوں کو چھوڑ کر باقی فوج کو فارغ کر دیا گیا۔
پھر دنیا نے دیکھا اسی علم و روحانیت کے مرکز پر 1258ء میں ہلاکو خان نے حملہ کیا اور اس شہر کے بیس لاکھ انسانوں میں سے صرف چار لاکھ انسان اپنی جانیں بچا کر بھاگ سکے۔ شہر کو آگ لگا دی گئی تاکہ بچے کھچے مسلمان بچ نہ سکیں۔ وہ تاریخِ اسلام کا کتنا عبرت ناک منظر تھا جب مستعصم باللہ ، آ ہنی زنجیروں اور بیڑویوں میں جکڑا ، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھا نا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے اور جواہرات رکھ دئیے۔ پھر معتصم سے کہا۔: ’’ جو سونا چاندی تم جمع کرتے تھے اُسے کھاؤ!‘‘۔ بغداد کا تاج دار بے چارگی و بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا، بولا: ’’ میں سونا کیسے کھاؤں؟ ‘‘ ہلاکو نے فوراً کہا ’’ پھر تم نے یہ سونا چاندی جمع کیوں کیا تھا؟‘‘ ۔ وہ مسلمان جسے اُسکا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کیلئے ترغیب دیتا تھا، کچھ جواب نہ دے سکا۔ ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کیا: ’’تم نے اِن جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہ بنائے ؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی، تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟‘‘۔ خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا۔ ’’ اللہ کی یہی مرضی تھی ‘‘۔ ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا: ’’ پھر جو تمہارے ساتھ ہونیوالا ہے ، وہ بھی خدا کی مرضی ہوگی۔‘‘۔ پھر ہلاکو خان نے مستعصم باللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا، بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔ ہلاکو نے کہا ’’ آج میں نے بغداد کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اَب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔‘‘
عبرت
کا ایک سبق برِصغیرکی بھی ہے کہ مسلمانوں نے اتنے بڑے اور تمام نعمتوں سے مالامال
اس خطے پر 1000 سال حکومت کی، لیکن حاصل کچھ نہیں کیا۔ جب یورپ کے چپے چپے پر
تجربہ گاہیں اور تحقیقی مراکز قائم ہو رہے تھے، تب یہاں مسلمان حکمران تاج محل،
ہرن مینار، گھوڑا مینار اور شاہی محل تعمیر کروا رہے تھے۔ جب مغرب میں علوم و فنون
کی ترقی کے لیے لائبریریاں، کالج اور جامعات تعمیر کر رہے تھے، تب یہاں اس عرصے
میں ایک بھی کالج، جامعہ یا جدید علوم کے لیے درسگاہ تعمیر کرنے کا خیال تک نہ
تھا۔ جب وہاں نئی نئی ایجادات (جن میں بیشتر مسلمانوں کی ایجادات کی نقول تھیں) پر
تجربات کیے جارہے تھے ہمارے یہاں تان سین جیسے گویے نئے نئے راگ ایجاد کر رہے تھے۔
جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرنگالیوں کے بحری بیڑے بر صغیر کی بندرگاہوں پر اس
سونے کی چڑیا کو اپنے بس میں کرنے کے لیے دستک دے رہے تھے، ہمارے اَرباب و اختیار
شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدہوش پڑے تھے۔ تن آسانی، عیش کوشی اور عیش پسندی
نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہمارا بوسیدہ اور دیمک زدہ نظام بکھر گیا، کیونکہ
تاریخ کو اِس بات سے کو ئی غرض نہیں ہوئی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا
خالی؟ شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑئے ہیں یا نہیں ؟ درباروں میں خوشامدیوں ،
مراثیوں ، طبلہ نوازوں اور وظیفہ خوار شاعروں کا جھرمٹ ہے یا نہیں ؟ یا د رکھیے!
تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ عُذر قبو ل نہیں کرتی۔
جب
تک مسلمانوں نے اپنے آپ کو عیاشیوں سے دور رکھا، ترقی حاصل کرتے گئے اور جب ان
عیاشیوں میں پڑے، ذلیل و خوار ہوگئے۔
بقول
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
ع میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ
امم کیا ہے
شمشیرِ و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر
میخانہِ یورپ
کے دستور نرالے ہیں
لاتے
ہیں سرور اؤل، دیتے ہیں شراب آخر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں