پانامہ کیس کا آغازاس وقت ہوتا ہے جب 3 اپریل 2016 کو انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویٹیگیٹیو جرنلسٹس (ICIJ) نامی ایک تنظیم پانامہ پیپرز کے نام سے دنیا بھر کے آف شور کمپنیوں کے راز افشاء کرتی ہے۔ ان کمپنیوں میں پاکستان کے موجودہ وزیر ِ اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کے بچوں کے نام بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان کمپنیوں میں سے چار آف شور کمپنیوں میں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز کے نام بلواسطہ اور بلاواسطہ شامل ہیں۔ یہ کیس سپریم کورٹ میں پانچ ججوں کے بنچ میں چلتا ہے اورایک سال کے بعد 20 اپریل 2017 کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آتا ہے جو کہ کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ 2 جج حضرات کے مطابق موجوہ وزیرِ اعظم نااہل ہیں اور انھوں نے سچ کو چھپانے کی کوشش کی ہے جبکہ 3 جج صاحبان کا فیصلہ ہوتا ہے کہ پیش کیے گیے ثبوت ناکافی ہیں اور اس سلسلے میں جوئینٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنا کر مزید تحقیقات کروانی چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک جوائینٹ انویسٹیگیسن ٹیم بنائی جاتی ہے۔ جو کہ سپریم کورٹ کو دو مہینوں میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ دے گی۔ واضح رہےکہ اس ٹیم کی رپورٹ حتمی نہیں ہوگی اور اس پر سپریم کورٹ میں کیس بھی کیا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر یہ شریف خاندان کے خلاف ہوتو شریف خاندان اس کو تسلیم کرنے سے انکار کرسکتے ہیں اور ان کے ممبران پر اعلیٰ عدلیہ میں سوال جواب بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر کیس شریف فیملی کے حق میں آیا تو مخالفین یہی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ یہ تو ہے اس کیس کا بیک گراونڈ اور تھوڑا سا تعارف۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہوکیا رہا ہے۔ پانامہ پیپرز کے افشاء ہونے سے اب تک شریف فیملی کے حق میں جتنا شریف فیملی کے لوگ نہیں بولے، اس سے کئی گنا زیادہ وفاقی اور پنجاب کے وزراء بول چکے ہںن۔ وہ کہیں بھی ہوں، کسی بھی تقریب میں، یہاں تک کہ کسی کے مرنے پر اس کے گھر تعزیت کرنے گئے ہوں،اس موضوع پر شریف فیملی کی صفائی پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس مقدمے کا سارا خرچ حکومتِ پاکستان اٹھا رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مقدمہ شریف فیملی کے خلاف نہیں، پاکستان کے خلاف چل رہا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی پر بھی کھلے الفاظوں میں تنقید کی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ (نواز) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے تو حد ہی پار کردی۔ ایک تقریب کے دوران جے آئی ٹی کے ارکان اور جج حضرات کو دھمکیاں دیں اور ان کی زندگی عذاب کرنے اور ان کے بچوں کو چین سے جینے نہ دینے کی پیشن گوئی بھی کردی۔
پوری دنیا میں پانامہ پیپرز میں موجود لوگوں پر کیس چلے اور ان میں سے بہت سے لوگ اپنے عہدے سے مستفی بھی ہوئے۔ اب پانامہ لیک کا ہنگامہ پوری دنیا سے ختم ہوچکا ہے، مگر پاکستان میں ابھی بھی پہلے روز کی طرح ہیڈ لائینز میں موجود ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پاس اور کوئی کام ہی نہیں ہے سوائے اس پانامہ لیک کے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نواز شریف اور شریف خاندان ذاتی حیثیت سے اس مقدمے کا سامنا کرتا اور فیصلے کو تسلیم کرتا یا نواز شریف اپنے عہدے سے استیفا دے کر اس مقدمے کی پیروی کرتے۔ اس مقدمے میں کسی بھی طرح حکومت ِ پاکستان فریق نہیں ہے، اس لیے حکومتی مشینری اور وزراء کی اس مقدمے میں شمولیت نہیں ہونی چاہیے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پانامہ پیپرز میں تمام وزراء اور حکومت کے تمام لوگوں کے نام آئے ہیں اور حکومتِ پاکستان پر الزام لگایا گیا ہے۔ مقدمے میں اگر نواز شریف صاحب کو جے آئی ٹی بلاتی تو وہ اپنی ذاتی حیثیت میں اکیلے آتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ بحیثیت وزیرِ اعظم پاکستان کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے جو کہ غلط ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی حسن نواز اور حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تووہ پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ آئے اور ان کے ساتھ وفاقی وزراء کا بھی تھے جو کہ نہایت ہی غلط اور جے آئی ٹی پر دباؤ ڈالنے کے جیسا ہے۔
آج بھی وزیرِ ریلوے جناب سعد رفیق صاحب نے کھل کر جے آئی ٹی پر تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پانامہ پیپرز پاکستان کے خلاف عالمی سازش کا حصہ ہے۔ گویا اگر کل کو نواز شریف پاکستان کے وزیرِ اعظم نہیں رہے تو خدا نخواستہ پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ پاکستان کسی کی جاگیر نہیں ہے اور نہ ہی جمہوریت کسی ایک سیاسی جماعت کے وجود سے وابسطہ ہے۔ خواجہ سعد رفیق صاحب یہ بھول رہے ہیں کہ یہی وہ جمہوریت کے علم بردار نواز شریف صاحب ہیں، جو 1999 میں جیل میں قیدِ تنہائی اور موت کے خوف سے پرویز مشرف سے معائدہ کرکے ملک سے بھاگ چکے ہیں۔ یہی وہ نواز شریف ہیں، جنہوں نے لندن میں میثاقِ جمہوریت کے نام سے ایک معائدہ پاکستان پیپلز پارٹی سے کرتے ہیں اور بعد میں ان کے وزراء اور بھائی شہباز شریف پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین آصف علی ذرداری کو الٹا لٹکانے اور سڑکوں پر گھسیٹ گھسیٹ کر سوئس بنکوں سے پیسے واپس لانے کی باتیں کرتے ہیں۔ جب اقتدار میں آتے ہیں تو پرویز مشرف کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ ملک سے باہر جانے دیتے ہیں۔ شائد خواجہ صاحب کو پاکستانی قوم کی یاداشت پر شک ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی باتیں کرکے وہ جے آئ ٹی اور اعلیٰ عدالت پر دباؤ قائم کر کے اپنی مرضی کا فیصلہ کرواسکتے ہیں۔
اس وقت پاکستان نہایت ہی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ملک کے اندر اور باہر دشمن گھات لگا کر بیٹھے ہیں کہ ایک چھوٹی سی غلطی کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو نقصان پہنچا سکیں۔ افغانستان، ایران، بھارت، اسرائیل، روس اور امریکہ چاہے آپس میں کتنے ہی اختلافات رکھیں، پاکستان کے معاملے میں ان کی سوچ ایک ہے اور وہ یہ کہ اس ملک کو ترقی نہیں کرنے دینا۔ بین القوامی طور پر اس وقت پاکستان کے دوستوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ جبکہ دشمن بہت زیادہ ہیں۔ اس وقت ہمیں ذات کا نہیں، ملک کا سوچنا چاہیے۔ عرب ممالک میں شام اور ترکی جوکہ پاکستان کی مدد کرسکتے ہیں، خود ہی مشکلات کا شکار ہیں۔ سعودی عرب نے اپنی پالیسیاں تبدیل کر لیں ہیں اور اب وہ اسلامی ممالک سے زیادہ غیر اسلامی ممالک بھارت، امریکا اور فرانس جیسے ممالک کے ساتھ ہے۔ بہت جلد آپ یہ خبر سنیں گے کہ اسرائیل نے اپنا سفارت خانہ سعودی عرب میں کھول لیا ہے یا سعودی عرب نے اپنا سفارت خانہ اسرائیل میں۔ اب وہ پاکستان کا دوست نہیں رہا۔ اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم اپنی فارن پالیسیوں کی وجہ سے آج دنیا میں وہ مقام اور عزت نہیں رکھتے، جس کے ہم حقدار ہیں۔ چین بھی اپنے مفادات کے لیے ہماری مدد کر رہا ہے اور اس کی وجہ ہماری جغرافیائی پوزیشن ہے۔ دنیا میں کسی بھی معاملے میں دنیا ہمارا ساتھ نہیں دے رہی۔ ہم صرف تسلی کے حقدار ہیں۔ ہمارا تجارتی خسارہ بہت بڑھ چکا ہے۔ ہماری کوئی فارن پالیسی نہیں ہے۔ ہم اپنی پالیسی بنانے کے لیے ان ممالک کے محتاج ہیں جو کہ ہمارے دشمن ہیں۔ تمام معاملات کو چھوڑ کرپاکستان انتظامیہ کی پوری مشینری شریف خاندان کو اس پانامہ لیک سے بچانے میں اپنی طاقت اور وقت صرف کر رہی ہے۔
محمد ندیم جمیل
جامعہ کراچی 2/7/2017
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں