منگل، 4 جولائی، 2017

پانامہ کیس کا فیصلہ

پانامہ کیس کا فیصلہ
پانامہ کیس کا فیصلہ آنے والا ہے۔ اس کا فیصلہ کسی کے حق میں آئے یہ کسی کے خلاف۔، کچھ نہیں ہونے والا۔ زیادہ دور مت جائیں، افتخار محمد چودہری والے معاملے میں بھی اسی طرح کا شور تھا کہ جسیے اس کے بحال ہوتے ہی پاکستان میں نہ جانے کتنی تبدیلی آجائے گی۔ کچھ نہیں ہوا، ہاں ہوا یہ کہ اگلے پانچ سالوں تک پیپلز پارٹی کا نام نہاد احتساب ہوتا رہا اور جاتے جاتے چودہری صاحب نے دھاندلی میں مدد کرکے نواز شریف کو حکومت کا تحفہ دیا جوکہ ان کی بحالی کی تحریک میں مدد کا انعام تھا۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو جس وقت جنرل ایوب خان نجات دہندہ بن کر ملک پر قابص ہوا تو ایسا لگ رہا تھا کہ اب پاکستان سپر پاور بن جائے گا۔ ہوا یہ کہ ملک مزید پیچھے کی طرف چلا گیا۔ ایوب خان کی پالیسی کی وجہ سے پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ پھر بھٹو نجات دہندہ بن کر ملک میں پہلی جمہوری حکومت کا وزیر اعظم بن کر آیا اور ملک کا معاشی جنازہ نکال دیا۔ اس کو پھانسی کی سزا ہوئی جس کو 30 سالوں بعد عدالتی قتل قرار دے دیا گیا۔ مردِ مومن، مردِ حق، ضیاء الحق نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالی اور ملک کا بیڑا غرق کردیا۔ ملک کو افقان جنگ میں بھڑا کر ملک میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو متارف کروایا۔ ہم آج تک اس کی سزا بُھگت رہے ہیں۔ پھر بے نظیر اور نواز شریف ملک کو لوٹنے آئے اور لوٹ کو کنگال کردیا۔ مشرف نے جب ملک پر قبصہ کیا تو سب نے سوچا کہ شائد اب ملک سنور جائے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ یہ ساری کہانی بتانے کا مقصد ہے کہ ان تمام لوگوں کے اقتدار میں آنے پر لوگ اسی طرح خوش تھے اور اُس وقت کو پاکستان کے لیے نیا موڑ قرار دے رہے تھے۔ ہوا کچھ نہیں۔ جب مشرف اقتدار سے علیحدہ ہوا تو ایسا لگا کہ اب ملک کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کیا ہوا؟ کچھ نہیں۔
اگر فیصلہ نواز شریف کے خلاف آتا ہے تو یہ نواز شریف کی سیاسی شہادت اور اس کے تمام جرم سے رہائی ہوگی ۔ کیوں کہ عوام الناس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت پانامہ کیس میں نواز شریف کا جرم یہ ہے کہ وہ حسن، حسین اور مریم کا باپ ہے، بس۔ اس پر یا اس کی حکومت پر کوئی کرپشن کا کیس نہیں ہے۔ اس کی حکومت پر کرپشن ثابت نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے۔ نواز شریف ایک کاروباری شخص ہے اور اس کو غیر قانونی کام قانونی ڈھنگ سے کرنا آتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ وہ نا اہل ہوجائے گا اور اس کی جگہ اس کے خاندان کا کوئی دوسرا شخص لے لے گا۔ 
جس ملک میں سرکاری دفاتر میں بھنگی سے لے کر ڈائریکٹر تک سب کرپشن کرتے ہوں۔ پہلی کلاس کے طالبِ علم سے پی ایچ ڈی کرنے والے طالبِ علم تک سب نقل کرکے ڈگری حاصل کرنا چاہتے ہوں، دودھ کے نام پر کیمکل بھرا زہر، سبزی اور پھلوں کے نام پر سڑا ہوا کچرا، اناج کے نام پر کنکر پتھر، دواوں کے نام پر زہر، کولڈ ڈرنک کے نام پر جانوروں کو پلانے والی بعد المیاد دوائیاں، حلال جانوروں کے نام پر گدھوں اور کتوں کا گوشت بیچا جارہا ہو۔ جہاں سڑک پر چلنے والا پیدل سے لے کر کروڑوں کی گاڑیوں میں سفر کرنے والے امیر زادے اور ایک چھوٹے دوکاندار سے لے کر ارب پتی تاجرسب کرپٹ ہوں۔ جہاں تحواروں پر لوٹ کا بازار گرم ہو، جہاں پولیس، عدالت، پٹواری خریدے جاسکتے ہوں، جہاں اقتدار میں آنے کے لیے ارکانِ اسمبلی اور سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے لیے جاہل لوگ ڈگریاں خریدیں اور جرم ثابت ہونے پر کوئی سزا نہ ہو۔ جہاں ایک قومی اسمبلی رکن کا بھائی ایک ڈیوٹی دیتے پولیس کانسٹبل کو اپنی گاڑی سے کچل کر رعب سے عدالت آئے، جیسے اس نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہو۔ اس ملک میں اس قسم کی چھوٹی سزا سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ یہاں تو فرانس اور چین جیسا انقلاب چاہیے۔ میری بات سے بہت سارے لوگ اختلاف کریں گے، مگرجب جہاز میں کوئی ایک سوراخ ہوتو اس کی مرمت کی جاتی ہے، لیکن اگر ہر تختے میں سوراخ ہو توپورے جہار کی مرمت کی جاتی ہے۔ دودھ میں نواز شریف یا آصف ذرداری پانی اور زہر نہیں ملاتا، دواؤں کے نام پر نقلی اور بعد المیاد دوائیں یہ لوگ نہیں بناتے اور فروخت کرتے۔ جب یوسف رضا گیلانی کو سزا ہوئی تو کون سا ملک ترقی کر گیا، اس سے بڑا کرپٹ شخص وزیر ِ اعظم بن گیا۔ مسئلہ کسی شخص میں نہیں، سِسٹم میں ہے۔ اگر راہ سے چلتے کسی شخص کو پکڑ کر وزیرِ اعظم بنا دیا جائے تو وہ بھی کرپشن کرے گا کیوں کہ سِسٹم خراب ہے۔ ایک شخص کو نشانِ عبرت بنانے سے سب کچھ صحیح نہیں ہوگا۔ سِسٹم کو صحیح کرنا ہوگا۔ بد قسمتی سے اس ملک میں ہر شخص کرپشن کرنا چاہتا ہے۔ بس موقع نہیں ملتا۔ جتنا ملتا ہے، اتنا کرلیتا ہے۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ اگر آپ کو کوئی بڑا عہدہ مل جائے اور آپ کو ملازمت دینے کی اجازت ہوتو آپ سب سے پہلے کس کو ملازمت دیں گے؟ اپنے جاننے والوں کو یا حقدارکو؟
 اس کے مقابلے میں پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 لگا، جس کی کم سے کم سزا پھانسی ہے، الطاف حسین پر ملک سے غداری اور را سے مدد لینے اور اس کی مدد کرنے کا الزام ثابت ہوگیا۔ آج دونوں ملک سے باہر بیٹھ کر سیاست کررہے ہیں۔ کسی کو شوکت عزیز اور ڈاکٹر عشرت العباد یاد ہیں؟ کیا وہ مجرم نہیں؟ ان سب کا کیا بگڑا؟ کچھ نہیں۔ نواز شریف کا بھی کچھ نہیں بگڑے گا۔ صرف اس کے تمام جرائم پر پردہ پڑ جائے گا اور اگلے پانچ سالوں تک اس کے حواری ہر چینل پر بیٹھ کر کہتے رہیں گے کہ اگر نواز شریف کو سزا نہ ہوتی تو یہ ہوجاتا، وہ ہوجاتا۔ جس طرح آج کہتے ہیں کہ اگر 1999 میں حکومت نہ جاتی تو آج پاکستان سپر پاور ہوتا۔ جس طرح جن رینٹل پاورز کو شریف برادران کرپشن کے پاور اسٹیشنز کہا کرتے تھے، آج ان ہی رینٹل پاورز کے محتاج ہیں اور پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ ہم اُس وقت صحیح تھے اور نواز شریف غلط۔
اگر نواز شریف ملک کا وزیرِ اعظم نہیں ہوگا تو کون ہوگا؟ کسی کے پاس کوئی نعم البدل ہے؟ عمران خان یا بلاول ذرداری؟ ذرا غور تو کریں کہ کہ جو ایک صوبہ صحیح نہیں چلا سکتے وہ ملک کیا چلائیں گے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (نواز) کے دور میں جو ترقی پنجاب نے حاصل کی ہے، سندھ اور خیبر پختون خواہ نے حاصل نہیں کی، چاہے مرکز میں مسلم لیگ (نواز) کی حکومت مرکز میں ہو یا نہیں ہو۔
خدارا سب اپنے اپنے کام کریں اور اس فیصلے کو ایک عام فیصلے کی طرح لیں۔ اس فیصلے کا کچھ نہیں ہونے والا۔
محمد ندیم جمیل
جامعہ کراچی –
 04-07-2017



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں