مسئلہِ فلسطین
اور عالمِ اسلام
محمد ندیم جمیل، ایم-فِل،
ماس کام، جامعہ کراچی 16
مئی 2021
آج کل ہر طرف اسرائیل اور فلسطین کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہر دوسرا
شخص اسلامی ممالک اور خاص طور پر پاکستانی فوج پر سوال اُٹھا رہا ہے۔ بہت سارے
لوگوں کا ماننا ہے کہ پاکستانی فوج کو اسرائیل
پر حملہ کر دینا چاہیے۔ واحد ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے یہ ہمارا
فرض ہے کہ ہم اسرائیل سے جنگ کریں۔ یہ وہ دور نہیں کہ جنگ ہر مسئلہ کا حل ہو۔ یہ اسلام اور
مسلمانوں کے خلاف ایک لمبی منصوبہ بندی تھی، جس کا نتیجہ اب آ رہا ہے۔ اس کا ادراک
علامہ اقبال اور سرسید احمد خان کو ہوچکا تھا۔ سرسید احمد خان نے اپنی پوری زندگی
مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے کی کوشش اور علمی طور پر مغرب کا مقابلہ کرنے کی
تلقین میں گزار دی۔ عملی طور پر بھی ان سے جو ہو سکا، انھوں نے کیا۔ علامہ اقبال
کی شاعری کو اگر غور سے دیکھیں تو اُنھوں نے بھی اُمتِ مسلمہ کو جگانے کے لیے کی
تھی۔ وہ شاعری تقریبا 100 سال پرانی ہے۔ اس وقت ان کو پتہ تھا کہ یہ سب ہو رہا ہے،
اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا۔ اس کو مطلب کہ اس منصوبے کی ابتداء اس سے بہت پہلے ہو
چکی تھی۔
تاریخ میں دیکھا
جا سکتا ہے کہ اسلامی ممالک کبھی بھی ایک نہیں ہو سکے۔ کیوں کہ ہمیشہ سے ان کی
ترجیحات میں تضاد رہا۔ غیرمسلم ممالک کے آپس میں لاکھ اختلافات سہی، لیکن جب بات
اسلام اور مسلمانوں کی ہوتی ہے تو وہ سب ایک ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ جب کہ ہم
ہمیشہ مفادات، مفروضات، فرقہ واریت، رنگ، نسل، ذات پات اور عربی و عجمی میں بٹے
نظر آتے ہیں۔
معذرت کے ساتھ، ذرا اپنے اطراف پر نظر ڈالیں۔ مسلمان ممالک کتنی
چیزوں کے لیے غیر مسلم ممالک کے محتاج ہیں اور غیر مسلم ممالک کتنی چیزوں کے لیے
مسلم ممالک کے محتاج ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا۔ اس پر میرے اندازے کے
مطابق 300 سالوں سے کام ہو رہا ہے۔ ہم جن توپوں اور بم بارود کی باتیں کر رہے ہیں،
وہ بھی ہمیں غیر اسلامی ممالک مہیا کرتے ہیں۔ بچوں کے ڈائپر سے لے کر جنگی جہاز تک
ہم غیر اسلامی ممالک سے لیتے ہیں۔ پنیر، مکھن، شہد، دودھ، پانی، غرص کھانے، پہننے،
نہانے، تک کا سارا سامان غیر اسلامی ممالک سے آتا ہے۔ جنگی جہازوں، مشینری،
کمپیوٹرز، گاڑیوں اور گھڑیوں، کی بات ہی چھوڑ دیں۔ سوئی تک ہمیں ایک غیر اسلامی
ملک دیتا ہے۔ اگر غیر اسلامی ممالک امداد کے طور پر کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپ ہمیں مفت
میں نہیں دیتے تو شائد ہمارے ملک میں 2 سے 3 فی صد لوگ ہی کمپیوٹر استعمال کرنا
جانتے۔ باقی ساری باتیں چھوڑیں، ہم تو تعلیم بھی دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں۔
وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کیا پڑھانا ہے اور کیا نہیں۔ کس زبان میں پڑھانا ہے اور کس
زبان میں نہیں۔
کچھ ممالک تو
جہاد کو سرے سے اسلام کا حصہ ہی نہیں سمجھتے۔ کیا مشرقِ وسطیٰ کے اسلامی ممالک،
عرب ممالک، وسطی ایشیا کے اسلامی ممالک، افریقہ کے اسلامی ممالک اور ایشیا کے غریب
اسلامی ممالک اس جنگ میں اسرائیل اور غیر اسلامی ممالک کے سامنے کھڑے ہونے کی طاقت
رکھتے ہیں؟ بالکل بھی نہیں۔ یہ اپنے اپنے ملک کے اندرونی و بیرونی مسائل میں الجھے
نظر آتے ہیں۔ یہ دور چھاپہ مار جنگ کا دور نہیں کہ چھپ چھپ کر گروہ کی صورت میں
کسی بڑے ملک کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ یہ دور معاشی، سفارتی اور لمبی حکمت عملی کی
جنگ کا دور ہے۔
اسلامی ممالک اب غیر اسلامی ممالک کے اتنے محتاج ہو چکے ہیں کہ چاہ
کر بھی ان کے خلاف نہیں جا سکتے۔ صرف پیڑول اسلامی ممالک کا ہتھیار ہو سکتا تھا،
اب مغربی ممالک اس سے بھی جان چھڑا رہے ہیں۔ اپنی گاڑیوں اور دوسری مشینریوں کو
پیٹرول سے بجلی پر منتقل کر رہے ہیں۔ کچھ عرصے بعد وہ اس محتاجی سے بھی باہر نکل
جائیں گے۔ کیوں سعودی شہزادہ امریکا کے ہاتھوں ذلیل ہو کر بھی کچھ نہیں کہہ رہا۔
کیوں وہ جان بھوجھ کر غیر اسلامی قوانین اپنے ملک میں رائج کر رہا ہے۔ کیوں کہ
سعودی عرب معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اگر وہ صرف تیل پر انحصار کرتے
ہیں تو اگلے 20 سے 25 سالوں میں سعودی عرب کی معیشت تباہ ہونے والی ہے۔ اس سے
متعلق ایک چھوٹا سا بہت بڑا واقعہ ہوا ہے، جس کو صرف ایک خبر کے طور پر لیا گیا
ہے۔ لیکن اگر کسی کو اس بات کو نوٹ کرنا ہے تو کر لیں۔ مدینہ منورہ سے داخلی راستے
پر سے "صرف مسلم" کا بورڈ ہٹا کر "حرم ایریا" کا بورڈ لگا دیا
گیا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔ لیکن اس کے پیچھے ایک بہت بڑا منصوبہ کارفرما
ہے۔ کچھ عرصہ بعد آپ دیکھیں گے کہ غیر مسلم حکمران خانہِ کعبہ اور مدینہ کا دورہ
کریں گے۔ شائد اس وقت آپ کو یہ بات بہت بُری لگے لیکن سعودیہ حکمران اب اپنی معیشت
کو بچانے کے لیے بہت کچھ کریں گے۔ ہم پہلے کی طرح احتجاج کریں گے، اپنے ملک میں
توڑ پھوڑ کریں گے۔ او آئی سی کا اجلاس بلائیں گے، وہاں سعودیہ سے درخواست کریں گے
اور پھر اس کو سعودیہ کا اندرونی معاملہ کہہ کر اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ جائیں
گے۔
زیادہ تر اسلامی
ممالک اپنے ڈیفینس کے لیے مغرب ممالک کے محتاج ہیں۔ عرب ممالک کا پورا حفاظتی نظام
امریکہ اور نیٹو چلا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تقاریر میں بارہا اس بات کا اظہار کر
چکا ہے کہ عرب ممالک کے پاس صرف پیسہ ہے اور وہ پیسہ امریکہ کو دے کر امریکہ سے
عرب ممالک کے حفاظت کی درخواست کرتے ہیں۔ اگر اس صورت میں کوئی ملک اسرائیل کے
خلاف جنگ شروع کرتا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ عرب ممالک اخلاقی، معاشی اور فوجی طور
پر اس ملک کی مدد کریں گے۔
کہنے کو دنیا میں
57 اسلامی ممالک موجود ہیں لیکن جس وقت بھی حضرت محمد صلی آللّٰہ وسلم کے گستاخانہ
خاکوں کا مسئلہ ہو، کسی اسلامی ملک پر کسی غیر اسلامی ملک کے حملے کا مسئلہ ہو، بہت کم اسلامی
ممالک میں اس سلسلے میں ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کے
خلاف اسلامی ممالک سے زیادہ احتجاج غیر اسلامی ممالک میں دیکھنے میں آئے۔ برما میں
مسلمانوں کے قتلِ عام پر بھی کسی اسلامی ملک نے سنجیدہ قدم اُٹھانے سے گریز کیا۔
جب برما جیسے ملک کے خلاف کوئی عملی اقدامات نہیں کیے جا سکتے تو اسرائیل، امریکہ
اور دوسرے غیرمسلم ملک کے خلاف کوئی سنجیدہ کاروائی کرنا ایک خواب جیسا لگتا ہے۔
تاریخ پر نظر ڈالیں، مسلمانوں کو نقصان غیرمسلموں سے زیادہ مسلمانوں نے
پہنچایا ہے۔ ماضی میں بھی نظر ڈالیں تو آپ کو بہت کم مسلمان ممالک مل کر غیرمسلم
ممالک کا سامنا اور جنگ کرتے نظر آئیں گے، جب کہ غیر مسلم ہر موقع پر مسلمانوں کے
خلاف متحد نظر آتے ہیں۔ بلکہ بہت سارے مسلمان ممالک تو غیرمسلموں کا ساتھ دیتے نظر
آئیں گے۔ ہم نے کبھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ ہمیشہ تاریخ کا گلے کا ہار بنا کر
رکھا کہ ہم ماضی میں اتنے عظیم تھے اور ہم نے یہ یہ کارنامے سرانجام دیے۔ حال اور
مستقبل کے بارے میں کبھی نہیں سوچا اور اگر سوچا تو بھی غیرمسلموں کے دماغ سے۔
اندرونی خانہ جنگی کا شکار ممالک کو دیکھا جائے تو ان میں بڑی تعداد مسلمان
ممالک کی ہے۔ شام، لبنان، افغانستان، عراق وہ ممالک ہیں جو کہ اندرونی خانہ جنگی
کا شکار ہیں اور یہ سب کچھ چند دنوں یا سالوں میں نہیں ہوا بلکہ کئی دہائیوں تک ان
ممالک کے خلاف سازشیں کی گئی ہیں اور یہ ممالک ان سازشوں کا شکار ہوئے۔
اگر اخراجات اور آمدنی کی بات کی جائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق 2019 میں
تمام اسلامی ممالک کا مجموعی دفاعی بجٹ 2 کھرب 38 ارب ڈالرز تھا جب کہ صرف امریکہ
کا دفاعی بجٹ 7 کھرب 40 ارب ڈالرز سے زائد تھا۔ جو کہ اس کے جی ڈی پی کا 4 فی صد
تھا۔ دفاعی اخراجات کے حوالے سے بات کریں تو ابتدائی 15 ممالک میں صرف ایک اسلامی
ملک نظر آتا ہے اور وہ ہے سعودی عرب جس کا 2019 میں دفاعی بجٹ 48 ارب ڈالرز کا
تھا۔ کسی بھی اسلامی ملک کا دفاعی بجٹ 50 ارب ڈآلرز سے زائد نہیں رہا جب کہ انڈیا
کا دفاعی بجٹ 73 ارب ڈالرز سے ریادہ تھا۔
اپنے اردگرد نظر دوڑائیے۔ سائنس سے متعلق کتنی نئی کتابیں فارسی، عربی، اور
دوسری اسلامی ممالک کی زبانوں میں ملیں گی۔ اس کے مقابلے میں فرنچ، چائینیز،
جاپانی، انگریزی اور روسی زبانوں میں سائنس اور جدید موضوعات پر کتابوں کی تعداد
دیکھ لیں۔ اسلامی دنیا اور غیر اسلامی دینا میں موجود تعلیمی ادارے، لائبریریاں،
سائنسی تجرباہ گاہیں، پڑھنے اور لکھنے کا شوق اور علم دوستی کا موازنہ کر کے دیکھ
لیں۔ علاج معالجے کی سہولیات اور تجربات پر تحقیق کرلیں۔ صفائی اور حفضانِ صحت کے
بارے میں تحقیق کرلیں۔ عوامی سہولت اور انصاف کی فراہمی پر بات کر لیں۔ ایمانداری
اور انسانی حقوق کو موازنہ کرلیں۔ ہر جگہ غیراسلامی ممالک اسلامی ممالک سے بہت
بہتر حالت میں نظر آئیں گے۔
ملک اور قوم جلسے جلوسوں اور اپنے ملک میں توڑ پھوڑ کرنے سے ملک ترقی نہیں
کرتا۔ ایک دوسرے پر اپنے نظریات ٹھوسنے اور دوسرے کو کم تر، نیچ اور چور ثابت کرنے
سے ترقی نہیں ہوتی۔ ترقی کے لیے ایک طویل اور صبرآزما سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ مسلم
ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ جو امیر ممالک ہیں وہ عیاشیوں میں لگے ہیں، جو
ترقی پزیر ہیں وہ مانگنے میں لگے ہوئے ہیں اور جو غریب ہیں، وہ خانہ جنگی کا شکار
ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسلامی ممالک کو ایسی خوبیوں سے نوازا ہے کہ وہ پوری دنیا پر
حکمرانی کر سکتے ہیں، لیکن آپس کے اختلافات اور اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار
ہونے کی وجہ سے نہایت برے حالات کا شکار ہیں۔
ماضی میں جو خصوصیات اور اچھائیاں مسلمانوں کا خاصہ ہوا کرتی تھیں، آج
غیرمسلموں میں رائج ہیں۔ ایمانداری، دیانداری، سچائی، مسلمانوں میں ناپید سی ہوتی
جا رہی ہیں۔ بحیثیت قوم آج جو مسلمانوں کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے اس کے سب سے زیادہ
ذمہ دار خود مسلمان ہی ہیں۔ کیوں کہ مسلمانوں کو کوئی دوسری قوم نقصان نہیں پہنچا
سکتی اگر مسلمان متحد ہوں اور تمام اختلافات سے بالاتر ہو کر سب سے پہلے اسلام اور
مسلمانوں کے بارے میں سوچیں۔ لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ غیرمسلم ہم سب
کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم ہی ایک دوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے۔ عربی عجمی کو،
عجمی عربی کو، شعیہ سنی کو، سنی شعیہ کو غرض ہر فرقہ خود کو مسلمان اور دوسرے تمام
فرقوں کو غیر مسلم سمجھتا ہے۔ اور نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ اُن کو غیرمسلموں سے
زیادہ خطرناک اور اسلام کا دشمن تصور کرتا ہے۔
جب تک اسلامی ممالک اپنی معیشت، تعلیم، ہنر اور ایمانداری کو بہتر
نہیں کریں گے، آپسی اختلافات کو الگ رکھ کرصرف اسلام کے متعلق نہیں سوچیں گے، متحد
نہیں ہوں گے، اپنے اقدار کو نہیں اپنائیں گے، اور اللہ پر ایمان اور یقین کا اپنے
ایمان کا حصہ نہیں بنائیں گے، ہم ان غیرمسلم ممالک کے محتاج ہی رہیں گے۔
ہمیں جنگ ضرور کرنی چاہیے لیکن جنگ کرنے سے پہلے جنگ کے بعد ہونے
والے نقصان کا ازالہ کرنے کی طاقت تو جمع کر لیں۔ کیوں کہ اگر ابھی جنگ لڑیں گے توجنگ
کے لیے ہتھیار، تیکنیک، اور ہتھیار خریدنے کے لیے رقم کے لیے اور جنگ کے بعد اپنی
حالت کو درست کرنے کے لیے امداد اور قرضہ مانگنے بھی تو اٗنھی کے پاس جانا ہوگا۔